کیا ایران شہید فخری زادے کا فوری انتقام لے گا؟

  • ۵۷۸

الیکٹرانک اخبار "رائے الیوم" نے لکھا ہے کہ جوہری سائنسدان " محسن فخری زادہ " کے قتل کا بدلہ یقینی ہے لیکن ایران کے رہنما امریکہ اور صہیونی ریاست کے جال میں نہیں پھنسیں گے اور عجلت سے کام نہیں لیں گے۔
اس اخبار نے ابتدا میں ایرانی سائنسدان کے قتل کی رپورٹ دینے کے بعد لکھا کہ یورپی اور اسرائیلی میڈیا نے اس دھشتگردانہ کاروائی کو مکمل کیوریج دی اور بہت ساری رپورٹوں میں یہ بیان کیا گیا کہ یہ قتل ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ اور موساد کے جاسوسی ایجنٹوں کے ذریعے انجام پایا تاکہ علاقے میں حالات کو تناؤ کا شکار بنائیں۔
 
رائے الیوم نے مزید زور دے کر کہا کہ موساد دہشت گرد تنظیم اب تک اسی طرح کی کاروائیاں کر چکی ہے اور اس سے قبل چار ایرانی سائنس دانوں کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کر چکی ہے اور وہ دیگر حساس اور اہم شخصیات کو مٹانے کے لئے اپنی کوششیں ترک نہیں کرے گی۔ اور اس بات کا قوی امکان پایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنی باقی ماندہ مدت میں اس کے مشابہ دیگر کاروائیاں کرنے سے گریز نہ کرے۔

اس کے بعد اخبار نے ایران کے انتقام کے معاملے پر توجہ دی اور لکھا ہے کہ جلد اور سخت انتقام کا امکان پایا جاتا ہے اور مقبوضہ علاقوں یا اس حکومت کے سفارت خانوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے، اور یہ اس سخت انتقام کا پیش خیمہ ہوگا جو جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد لینے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ جبکہ تاحال عراق میں امریکی اڈوں کو بڑے پیمانے پر میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور بغداد کے گرین زون پر مارٹر حملے کیے گئے، جہاں امریکی سفارت خانہ واقع ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کو اپنے 13 اڈوں کو کم کرکے تین اڈوں میں سمیٹنا پڑا ہے اور جنوری تک عراق سے 500 فوجی واپس بلانے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوا ہے۔

رائے الیوم نے پھر لکھا کہ ایران کے رہنما کبھی بھی امریکہ اور صہیونی حکومت کے جال میں نہیں آئیں گے اور دو اہم وجوہات کی بناء پر جلد جوابی کارروائی نہیں کریں گے: پہلی ، اس طرح کی کارروائیوں میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے وقت اور صحیح لوگوں کی ضرورت ہوگی۔ دوسری یہ ایران اپنے غصے کو پی کر انتقام کو موخر کرنے کے لیے آمادہ ہے اس لیے کہ اس کے بدلے میں اسے قابل قدر نتائج حاصل ہونے والے ہیں۔

اخبار نے آخر میں یہ لکھا کہ مذکورہ سطریں محض ایک تجزیہ ہیں اور پیش گوئوں پر مبنی ہیں ، لیکن آنے والے ہفتوں میں یقینا غیر متوقع واقعات سامنے آنے والے ہیں اور سخت انتقام یقینی ہے البتہ ہر قاعدہ میں استثناء کی گنجائش ہوتی ہے، اور اب تک بہت سارے ایرانی فوجی اور سیاسی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ خطے میں مزاحمتی گروپوں نے شہید محسن فخری زادے کے خون کا بدلہ لینے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس جرم کا بروقت اور مناسب انداز میں جواب دیں گے۔

 

نیتن یاہو کا دورہ حجاز

  • ۴۸۳


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کہا جاتا ہے کہ یہودی ریاست کی فوج کو اس دورے کی خبر نہیں دی گئی تھی؛ اور بن سلمان اس خبر کی اشاعت کا خواہاں تھا۔ بن یامین نیتن یاہو کو بظاہر اندرون ریاست شدید تنقید کا سامنا ہے اور سیکورٹی اداروں نے اس کے اس اقدام کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ صہیونی مبصرین کہتے ہیں کہ نیوم کے نئے سعودی شہر میں ملاقات کے افشا کے حوالے سے نیتن یاہو کے فیصلے نے بن سلمان کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہودی ریاست کے سیاسی ایجنڈے کو بھی منتازعہ بنایا ہے۔ وزیر جنگ بنی گانتز نے بھی اس خبر کے افشا کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ یہودی ریاست کے اخبار یسرائیل ہیوم نے کہا ہے کہ بن سلمان، نیتن یاہو کے ساتھ اپنی ملاقات کی خبر کی نشر و اشاعت کا خواہاں تھا اور یہ کہ یہ یہودی حکام کے ساتھ بن سلمان کی پہلی ملاقات نہ تھی۔
مغربی ایشیا کے امور کے سینئر تجزیہ نگار ڈاکٹر سید افقہی نے کہا: یہودی ریاست کا وزیر اعظم ایران اور محاذ مزاحمت کے خلاف محاذ قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے اور سعودی حکمرانوں سے تعلقات کی بحالی کا وعدہ لے کر اندرون خانہ اپنے ذاتی مسائل حل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کررہا ہے۔
ذرائع ابلاغ نے سوموار (23 نومبر 2020ع‍) کو خبر دی کہ نیتن نے یاہو اتوار کی شام کو خفیہ طور پر حجاز مقدس کے دور پر جاکر سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پامپیو اور یہودی ریاست کے بدنام زمانہ خفیہ ادارے "موساد" کا سربراہ "یوسی کوہن" بھی اس موقع پر موجود تھے۔
یہودی ریاست کے وزیر تعلیم "یواف گالانت" نے سوموار کے دن اس دورے اور بات چیت کے سلسلے میں شائع ہونے والی خبروں کی تصدیق کردی۔
ادھر امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے بھی ایک سعودی اہلکار کے حوالے سے لکھا کہ یہودی وزیر اعظم اور سعودی ولیعہد نے تعلقات کی بحالی اور ایران کے بارے میں بات چیت کی ہے لیکن کسی مفاہمت نامے پر متفق نہیں ہوسکے ہیں۔
اسی سلسلے میں، اور اس حقیقت کے برعکس کہ وال اسٹریٹ جرنل سمیت مختلف ذرائع ابلاغ نے اس ملاقات کی تفصیلات بھی شائع کی ہیں، سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اپنے ٹوئیٹ پیغام میں اس دورے کی خبروں کی یکسر تردید کی ہے اور لکھا ہے: "میں نے مختلف ذرائع ابلاغ میں نیتن یاہو اور محمد بن سلمان کی ملاقات کے بارے میں کچھ رپورٹوں کا مشاہدہ ضرور کیا ہے لیکن ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور ملاقات میں صرف سعودی اور امریکی موجود تھے"۔
ادھر نیتن یاہو نے بھی اپنے دورہ حجاز اور سعودی ولیعہد کے ساتھ ملاقات کے بارے میں وضاحت دینے سے انکار کر دیا۔ اور ایک صہیونی اخبار نے بھی لکھا ہے کہ نیتن یاہو نے وزیر جنگ اور وزیر خارجہ کو اپنے دورے کے منصوبے سے آگاہ نہیں کیا تھا؛ اور وزیر جنگ "بنی گانتز" نے اس خفیہ دورے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "میں حجاز جانے والی خفیہ پرواز کے راز کے غیر ذمہ دارانہ افشا کی مذمت کرتا ہوں"۔
عراق کی النجباء اسلامی تحریک کے سیاسی شعبے نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا سعودی حکمرانوں کے اس اقدام کو خیانت اور غداری قرار دیا۔
فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک نے حجاز مقدس میں بنی سعود کی طرف سے غاصب یہودی ریاست کے وزیر اعظم کی پذیرائی اور خیر مقدم کی شدید مذمت کی اور خبردار کیا کہ عرب حکام کی طرف سے یہودی ریاست کی غلامی اختیار کرنے موجودہ سلسلہ فلسطینی عوام پر وسیع اور طویل المدت یہودی جارحیت کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عرب حکمران اور یہودی ریاست مل کر فلسطینی مظلومین کے خلاف وسیع جارحیت کے لئے ماحول سازی کررہے ہیں۔۔۔
ادھر حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ (حماس) کے راہنما اور سابق وزیر خارجہ محمود الزہار نے صہیونی وزیر اعظم کے دورہ حجاز پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ہمارا مسئلہ ملک حجاز نہیں ہے بلکہ مسئلہ وہ [سعودی] حکمران ہیں جو اس ملک پر مسلط ہوئے ہیں۔

جاری

 

یہودی معاشرے کو بکھیرنے والے اسباب

  • ۴۳۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: وہ اسباب و عوامل جو یہودی معاشرے کو پاش پاش کرتے اور انہیں ایک دوسرے سے بکھیرتے ہیں؛
قومیت
یہودی قانون کے مطابق صرف یہودی ماں کے بطن سے پیدا ہونے والا یہودی کہلاتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو آج دنیا میں رائج معاشرتی قوانین کے بالکل خلاف ہے اس لیے کہ آج دنیا میں بیٹے کو باپ کے ذریعے متعارف کرایا جاتا ہے نہ ماں کے ذریعے۔ یہودیوں میں اگر باپ عیسائی ہو اور اس کا بیٹا بھی بھلے عیسائی کیوں نہ ہو جائے لیکن یہودی رہے گا چونکہ اس کی ماں یہودی تھی، اور یہودی معاشرہ اسے یہودی ہی مانتا ہے۔ اسی بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ یہودیوں کے مختلف گروہ حتیٰ ظاہری اعتبار سے بھی کھلا اختلاف رکھتے ہیں۔ قومیت کے اعتبار سے کوئی خود کو سفاردی کہلواتا ہے اور کوئی اشکنازی، کوئی مشرقی یہودی اور کوئی عرب یہودی۔ اسی وجہ سے اسرائیل میں یہودیوں کو پہلے درجے کے شہری اور دوسرے درجے کے شہری میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ (۱)
سفاردی یہودی؛ یہ دراصل وہ یہودی ہیں جنہیں ہسپانیہ اور پرتگال سے ۱۵ صدی عیسوی میں نکالا گیا تھا لیکن دھیرے دھیرے سفاردیت کا مفہوم پھیلتا گیا اور شمالی افریقہ، مشرقی ایشیا نیز عرب ممالک کے رہنے والے یہودیوں کو بھی سفاردی یہودی کہا جانے لگا۔ ان یہودیوں کی زبان عبرانی اور لادینویی زبان ہے۔(۲) مغربی ممالک کے یہودی، خود کو برتر قوم اور سرمایہ دار یہودی کہلواتے ہیں۔ یہ جماعت آسانی سے تمام مغربی ممالک میں آ جا سکتی ہے اس کی مذہبی رسومات دیگر یہودیوں سے مختلف ہیں۔ یہ گروہ دیگر گروہوں کے ساتھ کبھی بھی نسل اور قومی روابط نہیں رکھتا اس لیے کہ انہیں پست اور دوسرے درجہ کا یہودی سمجھتا ہے۔ معروف فلاسفر “اسپینوزا” اور “بنجامین ڈزرائیلی” (برطانیہ کا سابق وزیر اعظم) اسی گروہ کا حصہ تھے۔
البتہ اس نکتہ کو نہیں بھولنا چاہیے کہ مشرقی اور عرب ممالک کے یہودیوں کو مذہبی رسومات میں سفاردویوں کے ساتھ بعض شباہتیں رکھنے کی وجہ سے انہیں سفاردی کہا گیا۔ حالانکہ نہ ان کی زبان کوئی ایک زبان تھی اور نہ ہی ان کا ماضی اور تاریخ سفاردی یہودی گروہوں کے ساتھ ملتا جلتا تھا۔
اشکنازی یہودی؛ یہ اصطلاح در حقیقت جرمنی کے یہودیوں پر اطلاق ہوتی تھی لیکن دھیرے دھیرے اس کے مہفوم میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور مغربی اور امریکی یہودیوں کو بھی اشکنازی یہودی کہا جانے لگا۔ ان کی زیادہ تر زبان ملکی زبان تھی نہ کہ مذہبی۔ یہ گروہ اپنے دین کی نسبت زیادہ متعصب کہلاتا ہے جبکہ دوسرے یہودی گروہ انہیں انتہا پسند یہودی کہتے ہیں۔ صہیونی جماعت اسی گروہ میں سے وجود میں آئی اور یہی گروہ صہیونیت کی حمایت کرتا ہے۔ (۳)
عقائد
یہودی مذہب تمام یہودی معاشرے (اسرائیلی اور غیر اسرائیلی) کو آپس میں جوڑنے کا اہم عنصر ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل کی موجودیت اس قوم کی مذہبی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ اس بنا پر علمائے یہود اپنے دینی متون کی تفسیر میں اس طرح احتیاط سے کام لیتے ہیں کہ حتیٰ بے دین اور سیکولر یہودیوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔
لیکن صہیونی اپنی تقسیم بندی میں یہودیوں کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں؛ نسلی یہودی، مذہبی یہودی۔ اور مذہبی یہودیوں کو تین گروہوں؛ بنیاد پرست (آرتھوڈاکس )، اصلاح پسند اور قدامت پسند میں تقسیم کرتے ہیں۔ البتہ اس درمیان کئی طرح کی اقلیتیں بھی پائی جاتی ہیں۔
اصلاح پسند یہودی (۴)
یہ جماعت اٹھارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں عصر روشن خیالی کے بعد جب یہودیت میں فلسفیانہ سوچ اور عقلیت پسندی کا رواج پیدا ہوا، وجود میں آئی۔ جرمنی کے موسی منڈلسن (۵) اصلاح پسند یہودی جماعت کے قدماء میں سے تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ کتاب مقدس کو جرمنی زبان میں ترجمہ کیا۔ اصلاح پسند یہودی کہ جو درحقیقت لیبرل اور سیکولر گروہوں کا بھرپور تعاون کرتے ہیں بہت سارے عقائد اور قومی و مذہبی رسومات کی مخالفت کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تعلیمات کی نئی تشریح کرنا شروع کر دی۔ من جملہ ان کی وہ اصلاحات جو شدید تنقید کا باعث بنیں یہ تھیں:
حقوق نسواں کی حمایت؛ اس سے قبل یہودی معاشرے میں عورتوں کے پاس کوئی اختیارات نہیں تھے، عورتیں بہت سے سماجی اور مذہبی پروگراموں میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں رکھتی تھیں۔ لیکن اصلاح پسند جماعت نے عورتوں کو اتنی چھوٹ دی کہ آج یہودی عورتیں ربی (خاخام) بھی بن سکتی ہیں اور حتیٰ عبادت کے لیے مخصوص لباس بھی پہن سکتی ہیں۔
ہم جنس پرستی؛ یہ ایک نئی بحث ہے جو کئی سالوں سے اسرائیلی معاشرے کے دامن گیر ہے اور اصلاح پسند گروہ اس کی سختی سے حمایت کر رہا ہے۔ انہوں نے حتیٰ ایسے قوانین بھی بنائے ہیں جو ہم جنس پرستی کو ربیوں (خاخاموں) کے لیے بھی جائز سمجھتے ہیں اور وہ اپنی عبادت گاہوں میں اس شرمناک فعل کے لیے مخصوص جگہ بنا سکتے ہیں۔
طلاق کا قانون؛ یہودی مذہبی قوانین کے مطابق، طلاق ایک پیچیدہ عمل ہے جو صرف شوہر کے ذریعے ہی انجام پانا چاہیے۔ اور اگر یہ عمل مکمل طور پر یہودی روایتی آئین کے مطابق انجام نہیں پاتا تو طلاق محقق نہیں ہو گا اور رشتہ زوجیت باقی رہے گا۔ اصلاح پسند گروہ نے اس عمل میں بھی دخالت کی اور زن و مرد کے حقوق میں مساوات کا نعرہ لگایا اور طلاق کے عمل کو ملکی قوانین کے مطابق انجام دینا شروع کر دیا۔
غیروں کے ساتھ شادیاں؛ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کی تمام یہودی فرقے مخالفت کرتے ہیں حتیٰ خود اصلاح پسند گروہ میں بھی اس کے مخالفین پائے جاتے ہیں اس کے باوجود اصلاح پسند جماعت غیر یہودیوں کے ساتھ شادی کو جائز سمجھتی ہے اور خاص شرائط میں اپنے مذہبی رہنما کو بھی غیر یہودی کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اصلاح پسند بطور کلی عصر مسیحا، سرزمین موعود کی طرف واپسی، جلاوطنی وغیرہ جیسے مفاہیم کے مخالف ہیں۔ اس لیے کہ ان موارد کو نسل پرستانہ تعلیمات کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اسرائیل کے موجودہ خاخام کے نظریات پر بھی متفق نہیں ہیں۔ (۶)
بنیاد پرست یہودی (۷)
بنیاد پرستی ایک ایسی اصطلاح ہے جو بطور کلی روایتی شاخوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ جماعت دوسرے تمام مذہبی گروہوں کے مقابلے میں زیادہ سخت اور روایتی ہے اور تلمود اور توریت کو خداوند متعال کا کلام مانتی ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ جماعت مکمل طور پر اصلاح پسند گروہ کی مخالف اور دشمن ہے۔ بنیاد پرست یہودی قائل ہیں کہ وہ منتخب قوم ہیں اور مسیح کے ذریعے صرف انہیں حکومت کا حق حاصل ہے۔ یہ جماعت صہیونی تحریک کے سخت حامی ہے۔ (۸)
قدامت پسند یہودی (۹)
در حقیقت یہ جماعت اصلاح پسندی اور جدیدیت پسندی کے مقابلے میں وجود میں آئی۔ قدامت پسند یہودی، ایک طرف سے روایتی دینی عناصر پر زور دیتے ہیں اور دوسری طرف سے ماڈرن دنیا کے ساتھ ان روایتی رسومات کو ہم آہنگ کرنے کی فکر بھی کرتے ہیں لیکن نہ ہر قیمت پر، اور نہ اصلاح پسند اور انتہا پسند یہودیوں کی روش سے بلکہ دینی اصول و مبانی کو محفوظ رکھتے ہوئے موجودہ زمانے کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس جماعت کے ایک سربراہ “زاکاریا فرانکل” کے بقول “درمیانی اصلاحات ایک ناگزیر عمل ہے لیکن یہ عمل اس طریقے سے انجام پانا چاہیے کہ دینی اصول اور ماضی کی روایتی رسومات محفوظ رہیں”۔(۱۰)
حواشی
۱ – https://www.farsnews.com/news/8807271904.
۲- گویشی رومیایی متعلق به قرن ۱۵م.
۳- https://rasekhoon.net/article/show/127176.
۴- Reform Judaism
۵- Moses Mendelssohn
۶- فصلنامه الاهیات تطبیقی، جنبش اصلاح طلبی یهود و چالش‌های آن در دوره مدرن، حسین سلیمانی، سید ابراهیم موسوی، سال ششم، شماره چهاردهم، زمستان ۱۳۹۴، ص۱۴۸-۱۳۹٫
۷- Orthodox Judaism
۸- http://jscenter.ir/jewish-studies/sociology-of-jews/6720
۹- Conservative Judaism
۱۰- http://tahoor.com/fa/Article/View/115243.

 

موبائل اور کمپیوٹر سافٹ ویئرز اسرائیلی جاسوسی کے ہتھکنڈے

  • ۵۸۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل سے وابستہ بہت ساری کمپنیوں نے کمپیوٹر اور موبائل فون کے لیے ایسے سافٹ ویئر تیار کئے ہیں جن کے ذریعے وہ بآسانی صارفین کی جاسوسی کر سکتے ہیں۔ ان کمپنیوں کا بظاہر جاسوسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں اسرائیلی جاسوسی ادارے انہیں خطیر رقم دے کر ان سے ایسے سافٹ ویئر تیار کرواتے ہیں جن کے ذریعے وہ جاسوسی کر سکیں۔ بظاہر یہ سافٹ ویئر کے میدان میں خود کو مستقل قرار دینے والی دنیا کی معروف کمپنیاں ہیں لیکن صہیونی ادارے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہو پاتی کہ جو سائٖٹ ویئر انسان کے موبائل فون میں ہے اس کے ذریعے صہیونی ادارے اس کی تمام معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
حال ہی میں سافٹ ویئر بنانے والی چند امریکی کمپنیوں کے بارے میں کچھ معلومات سامنے آئی ہیں جن سے معلوم ہوا ہے کہ بظاہر یہ امریکی کمپنیاں ہیں لیکن ان کو چلانے والے صہیونی یہودی ہیں جو اس سے پہلے وہ اسرائیلی فوج کے سائبری اداروں میں ملازم رہے ہیں۔
اوناوو(Onavo) کمپنی
اوناوو کمپنی سافٹ ویئر بنانے والی وہ کمپنی ہے جس کی اسرائیلی فوج کے سپاہیوں نے بنیاد ڈالی۔ یہ کمپنی شروع شروع میں اسرائیل میں ایک مستقل کمپنی دکھائی دیتی تھی۔ اور فیس بوک نے ۲۰۱۳ میں اسے خرید لیا تھا۔ لیکن بعد میں جب فیس بوک کے صارفین نے اوناوو کمپنی کے جاسوسی کمپنی ہونے کا راز فاش کیا تو فیس بوک اس کے سافٹ ویئر ڈیلیٹ کرنے پر مبجور ہو گیا۔ (۱)
NSO Group
Omri Lavie نے اس کمپنی کی بنیاد ڈالی۔ جریدہ فوربز کی رپورٹ کے مطابق، امری لاوی بھی اسرائیلی فوج کا آدمی ہے۔ جس نے آج تک کسی نامہ نگار کو انٹرویو نہیں دیا۔ اور اس کے بارے میں بہت کم اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ (۲) اس کی کمپنی اسرائیلی جاسوسی ادارے Ability Inc کے ساتھ بھرپور تعاون رکھتی ہے۔
اس سے قبل نیویورک ٹائمز نے بھی رپورٹ دی تھی کہ متحدہ عرب امارات نے اس کمپنی کے سافٹ ویئرز کے ذریعے قطری حکمرانوں کی جاسوسی کی ہے۔(۳)
 
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ۱۳ مئی ۲۰۱۹ کو اعلان کیا کہ این ایس او گروپ اپنی مصنوعات انسانی حقوق کو پامال کرنے والے ممالک کو بیچتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے مخالفین کی جاسوسی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس گروپ سے جاسوسی سرگرمیوں کو خاتمہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ (۴)
کینیڈا کی ٹورینٹو یونیورسٹی نے اپنی ایک تحقیق میں اعلان کیا کہ این ایس او گروپ اپنی مصنوعات کو بحرین، قزاقستان اور سعودی عرب جیسے ممالک کو دیتا ہے جو اپنے شہریوں کی جاسوسی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔(۵)
Palo Alto
پالو الٹو کمپنی بھی نیر زوک (Nir Zuk) نامی ایک اسرائیلی شخص کے ذریعے وجود میں لائی گئی۔ نیرزوک تل ابیب کے جنوبی علاقے میں پیدا ہوئے، انہوں نے ۱۹۹۰ سے ۱۹۹۴ تک اسرائیلی فوج کے سائبری شعبہ میں ٹریننگ حاصل کی۔ بعد از آں انہوں نے ۲۰۰۵ میں پالو آلٹو نامی کمپنی کی بنیاد ڈالی۔ اس کمپنی کا اصلی دفتر کیلیفرنیا میں ہے۔ اس کمپنی کا مقصد سائبری حملوں کے مقابلے میں حفاظتی نٹ ورک قائم کرنا ہے۔ یہ کمپنی دنیا کے ۱۵۰ ملکوں میں ۶۰ ہزار کمپنیوں کو اپنا تعاون دیتی ہے۔ انتفاضہ الکٹرونیک ویبگاہ کے مطابق اس کمپنی کے مالک نے چونکہ اسرائیلی فوج کے سائبری شعبہ میں ٹریننگ حاصل کی ہے لہذا جو سافٹ ویئر یہ کمپنی تیار کر رہی ہے یقینا ان کے ذریعے جاسوسی کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ (۶)
 
حواشی
[۱] https://www.haaretz.com/.premium-facebook-buys-israeli-startup-onavo-for-150m-1.5273370
[۲] https://www.forbes.com/sites/thomasbrewster/2016/08/25/everything-we-know-about-nso-group-the-professional-spies-who-hacked-iphones-with-a-single-text/#3af074d73997
[۳] https://www.nytimes.com/2018/08/31/world/middleeast/hacking-united-arab-emirates-nso-group.html
[۴] https://www.amnesty.org/en/latest/news/2019/05/israel-amnesty-legal-action-stop-nso-group-web-of-surveillance/
[۵] https://citizenlab.ca/2018/09/hide-and-seek-tracking-nso-groups-pegasus-spyware-to-operations-in-45-countries/
[۶] https://electronicintifada.net/content/are-israels-spies-stealing-your-data/28051
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسلام کے ساتھ یہودیوں کی دشمنی

  • ۳۶۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسلام کے ساتھ یہودیوں کی دشمنی ظہور اسلام سے ماقبل کے زمانے کی طرف پلٹتی ہے۔ اس دشمنی کی بنیادی وجہ ان کی مادیت پرستی اور قدرت طلبی ہے جو اس بات کا بھی سبب بنی کہ دین مسیحیت کو اصلی راستے سے منحرف بھی کر دیں اور الہی پیغمبروں کے قتل کا بھی اقدام کریں۔ ذیل میں اسلام کے ساتھ یہودیوں کی دشمنی کی اہم ترین وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛
۱۔ یہودی اسلام کی نسبت جو شناخت رکھتے تھے اس کی وجہ سے انہوں نے اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے مدینہ کا انتخاب کیا چونکہ وہ جانتے تھے کہ اسلام کو مدینے سے عروج ملے گا اگر وہ پیغمبر اسلام پر ایمان لانے کا ارادہ رکھتے تو مکہ میں سکونت اختیار کرتے اور آخری پیغمبر کا انتظار کرتے۔
۲۔ یہودیوں نے بہت کوشش کی کہ پیغمبر اسلام (ص) دنیا میں نہ آنے پائیں، اس وجہ سے انہوں نے آپ کے اجداد اور پھر خود آپ کو قتل کرنے کے منصوبے بنائے یہاں تک کہ جناب عبد المطلب آپ کی جان کی حفاظت کے لیے مجبور ہوئے آپ کو مکہ سے باہر ایک دایہ کے حوالے کریں۔
۳۔ پیغمبر اکرم(ص) کے مدینہ ہجرت کے بعد یہودیوں نے آپ پر ایمان لانے کے بجائے آپ کی مخالفت شروع کر دی لہذا پیغمبراکرم مجبور ہوئے ان کے ساتھ سخت پیمان باندھیں اور پیمان شکنی کی صورت میں تلوار سے ان کا جواب دیں۔
۴۔ کفار کے ساتھ ہوئی مسلمانوں کی جنگوں جیسے احد و احزاب میں بھی یہودیوں نے مشرکین مکہ کا ساتھ دیا۔
۵۔ مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کے تینوں قبیلوں نے پیغمبر اکرم کے ساتھ عہد شکنی کی اور آپ نے سختی کے ساتھ ان کا جواب دیا اور انہیں مدینے سے نکال باہر کیا۔(۱)
ان تمام دشمنیوں کی وجہ سے قرآن کریم نے مشرکین کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو مومنین کا بدترین دشمن قرار دیا؛
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ وَ الَّذِینَ أَشْرَکُواْ؛ (۲)
یہودیوں نے نہ صرف باہر سے اسلام کا مقابلہ کیا اور مسلمانوں کے خلاف صف آرائی کی بلکہ بہت سارے یہودی لبادہ اسلام اوڑھ کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوئے اور ان کے سیاسی اور ثقافتی نظام میں نفوذ حاصل کیا اور یہودیت کے انحرافی افکار کو اسلامی ثقافت میں داخل کرنا شروع کیا۔ اسلامی تعلیمات و ثقافت میں یہودی افکار کا نفوذ اس قدر زیادہ تھا کہ آج اسلامی روایات میں ایک کثیر تعداد اسرائیلیات کے نام سے جانی جاتی ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس دور میں جب خلفائے راشدین نے نقل حدیث کو ممنوع کر دیا تھا اور کوئی مسلمان راوی حدیث پیغمبر بیان کرنے کی جرئت نہیں کر سکتا تھا، بعض تازہ مسلمان شدہ یہودی جیسے کعب الاحبار اور ابوہریرہ کو نقل حدیث کی اجازت تھی۔(۳)
ایسے حالات میں اسلامی معاشرہ حقیقی اسلامی تعلیمات سے اس قدر دور ہو جاتا ہے کہ فرزند رسول خدا کا قتل تقرب الہی کی خاطر انجام پاتا ہے!!!۔

بقلم ڈاکٹر محسن محمدی
حواشی
[۱] . مزید مطالعہ کے لیے رجوع کریں کتاب دشمن شدید،‌ مهدی طائب، ص۸۰-۱۴۰٫
[۲] – مائده، آیه ۸۲٫
[۳] . اسرائیلیات وتاثیر آن بر داستان¬های انبیاء در تفاسیر قرآن،‌ حمید محمدقاسمی،‌ سروش، تهران، ۱۳۸۰٫
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہودی قوم نسل پرست

  • ۳۶۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودی قوم کی ایک خاص اور منفرد خصلت جو شائد ہی کسی دوسری قوم میں پائی جاتی ہو وہ نسل پرستی ہے۔ یہودی قوم صرف خود کو برتر اور انسانی شرافت کی مالک سمجھتی ہے اور اس کے علاوہ دیگر تمام انسانوں کو یا تو انسان ہی نہیں سمجھتی یا اپنا غلام سمجھتی ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) کے خلاف یہودیوں کے پروپیگنڈے کی ایک اہم وجہ یہی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ اسلام نے عرب و عجم اور یہود و نصاریٰ کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں چھوڑا اور تقویٰ کو معیار برتری قرار دے دیا۔ لہذا اسلام قبول کر کے وہ قوم یہود اور یہودیت کو برتر نہیں کہلوا سکتے تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے نہ صرف اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اسلام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کیں۔ اور مختلف بہانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کے مدمقابل کھڑے ہو گئے اور اسلام کے نہال اور پودے کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی۔ قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:
وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَیَّامًا مَعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ یُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ[۱]
“اوریہ کہتے ہیں کہ ہمیں آتش جہنم چند دنوں کے علاوہ چھو بھی نہیں سکتی ان سے پوچھیے کہ کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لیا ہوا ہے جس کی وہ مخالفت نہیں کر سکتا یا اس کے خلاف جہالت کی باتیں کر رہے ہیں”۔
قوم یہود کا یہ عقیدہ کہ وہ برتر قوم ہے اور ان کے گناہگار صرف چند دنوں کے علاوہ جہنم میں نہیں رہیں گے اور خدا بہشت میں انہیں منتقل کر دے گا یہ اس قوم کے انحراف اور خود پرستی کے دلائل ہیں۔ (۲) وہ قائل ہیں خدا ان پر سب سے زیادہ مہربان ہے اس وجہ سے آخرت میں انہیں کوئی سزا نہیں دے گا اگر سزا دے گا بھی تو زیادہ سے زیادہ چالیس دن یا ستر دن(۳) اس کے بعد انہیں جنت میں اعلیٰ ترین مقامات سے نوازے گا۔ یہ وہ غلط اور بے بنیاد تصورات ہیں جو اس قوم کے برائیوں میں مبتلا ہونے اور دنیا میں ظلم و جنایت کا ارتکاب کرنے کا باعث بنے ہیں۔(۴)
لَیْسَ بِأَمَانِیِّکُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَهْلِ الْکِتَابِ ۗ مَنْ یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِهِ وَلَا یَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا[۵]
“کوئی کام نہ تمہاری امیدوں سے بنے گا نہ اہل کتاب کی امیدوں سے، جو بھی برا کام کرے گا اس کی سزا بہرحال ملے گی اور خدا کے علاوہ اسے کوئی سرپرست اور مددگار بھی نہیں مل سکتا”۔
اس آیت کی شان نزول میں آیا ہے کہ مسلمان اور اہل کتاب ایک دوسرے پر فخر و مباہات کر رہے تھے؛ اہل کتاب کہتے تھے: ہمارا پیغمبر تمہارے پیغمبر سے پہلے آیا ہے اور ہماری کتاب بھی تمہاری کتاب سے پہلے آئی ہے لہذا ہم تم سے برتر ہیں”۔ مسلمان کہتے تھے: ہمارا پیغمبر خاتم الانبیا ہے اور ہماری کتاب آسمانی کتابوں میں کامل ترین کتاب ہے، لہذا ہم تمہارے اوپر فوقیت رکھتے ہیں”۔ یہودی کہتے تھے ہم برگزیدہ قوم ہیں اور آتش جہنم سوائے چند دنوں کے ہمیں نہیں جلائے گی”۔
وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَیَّامًا مَعْدُودَةً[۶]
اور یہ کہتے ہیں کہ آتش جہنم چند دنوں کے علاوہ ہمیں چھو بھی نہیں سکتی۔
اور مسلمان کہتے ہیں: ہم بہترین امت ہیں اس لیے کہ خداوند عالم نے ہمارے بارے میں کہا ہے: « کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ»[۷]
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے منظر عام پر لایا گیا ہے۔
یہودیوں کی یہی قومی برتری اس بات کی باعث بنی ہے کہ یہودی اپنے دین کی تبلیغ نہیں کرتے اور یہودیت کو صرف اپنے لیے سمجھتے ہیں اور دوسروں کو یہودیوں کا خادم شمار کرتے ہیں۔ جیسا کہ تلمود میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اور تلمود میں یہودیوں کو یہ بھی تعلیم دی گئی ہے کہ یہودیوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ غیریہودیوں پر مہربانی کریں۔
حواشی
[۱] سوره مبارکه بقره آیه ۸۰
[۲] ناصر مکارم، تفسیر نمونه، ج ۱، ص ۳۲۲
[۳] محمد رشید رضا، ج ۱، ص ۳۶۲ و الطبری، ج ۱، ص ۵۴۰
[۴] ناصر مکارم، همان، ص ۳۲۵
[۵] سوره مبارکه نساء آیه ۱۲۳
[۶] سوره مبارکه بقره آیه ۸۰
[۷] سوره مبارکه آل عمران آیه ۱۱۰
[۸] جعفر مرتضى الحسینی العاملی، ما هو الصحیح من سیرة الرسول الاعظم، ج ۴، ص ۱۱۹

 

یہودیت اور صہیونیت میں فرق

  • ۴۹۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج کے صہیونی معاشرے کی جڑیں در حقیقت یہودی آئین و تاریخ میں پیوستہ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، صہیونیت یہ کوشش کر رہی ہے کہ تمام یہودی فرقوں کو ایک ہی عنوان کے نیچے جمع کرے۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ دنیا کے مختلف یہودی فرقوں کا توریت کی نسبت نقطہ نظر مختلف ہے۔ جیسا کہ بعض کا عقیدہ ہے کہ یہ کتاب حضرت موسی(ع) کے بعد لکھی گئی ہے۔
یہودیت اور صہیونیت میں بنیادی فرق
اصطلاح میں یہودی اسے کہا جاتا ہے جو حضرت موسیٰ (ع) کا پیرو ہو اور توریت کو آسمانی کتاب مانتا ہو۔ لیکن اس وقت یہودی مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں؛ ان میں سے کچھ گروہ ایسے ہیں جو صہیونی افکار کے مالک ہیں اور اس جماعت کا ساتھ دیتے ہیں۔
صہیونیت در حقیقت ایک ایسی جماعت ہے جو انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں ایک یہودی ملک کی تشکیل کے مقصد سے وجود میں آئی۔ یہ جماعت ایسے حال میں دین اور شریعت موسیٰ(ع) اور سرزمین موعود کی بات کرتی اور صہیونی ریاست کی بقا کے لیے تلاش کرتی ہے کہ اس کے بانی ملحد اور بے دین ہیں۔
صہیونیت نسل پرستی، قوم پرستی اور استکباری فکر پر مبنی جماعت ہے(۱)۔ اسی وجہ سے یہودیوں کا ایک مذہبی گروہ “نیٹوری کارٹا (Neturei Karta) “صہیونیوں کو بالکل یہودی نہیں مانتا اور صہیونیوں کے خلاف جد وجہد کرتا ہے۔ ان کی نگاہ میں صہیونیوں کا کردار سنت الہی کے مخالف ہے۔ نیٹوری کارٹا کا ماننا ہے کہ صہیونیت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے یہودیوں اور غیر یہودیوں کو استعمال کر رہی ہے۔ (۲)۔ اسرائیل کے اندر پائی جانی والی مذہبی جماعتیں بھی شدید اختلافات کا شکار ہیں یہاں تک کہ صہیونی ریاست کی فوج میں ایک مشترکہ شکل کی نماز پڑھوانا دشوار ہے۔ اس لیے کہ ہر گروہ جیسے اشکنازی یہودی ( Ashkenazi Jews) اور سفاردی یہودی(Sephardi Jews) کے یہاں نماز کی ادائیگی کے اپنے اپنے طریقے ہیں، جس کی اصل وجہ طبقاتی اختلاف ہے جو یہودیوں کے اندر کثرت سے دکھائی دیتا ہے اور صہیونی ریاست کی بناوٹ میں بھی یہ اختلاف بے انتہا موثر ہے۔ (۳)
اختلافات کے مذکورہ موارد کے علاوہ عالمی صہیونیت کے ذریعے دنیا بھر سے مختلف کلچر اور ثقافت کے حامل یہودیوں کو اسرائیل میں اکٹھا کرنا ان مشکلات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ یہ ایسی تلاش و کوشش ہے جو یہودیت مخالف جماعت سے بھی غیر منسلک نہیں ہے۔ ایک امریکی یہودی مولف ’لینی برنر‘ (Lenni Brenner) اپنے کتاب ’’ڈکٹیٹرشپ کے دور میں صہیونیت‘‘ میں صہیونیت کے یہودیت مخالف جماعتوں کے ساتھ پائے جانے والے روابط سے پردہ ہٹاتے ہیں۔
اسرائیل کی تشکیل
کسی بھی ملک کی تشکیل کا قانونی طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایک جغرافیہ اور تاریخ کے دامن میں پائے جانے والے لوگ اکٹھا ہوں اور ایک خاص سرزمین پر حکومت تشکیل دیں۔ لیکن صہیونی ریاست کی تشکیل کے حوالے سے کچھ مختلف طریقہ کار اپنایا گیا۔ صہیونی شروع میں بندوق اور اسلحہ کے ساتھ سرزمین فلسطین میں داخل ہوئے اور فلسطین پر قبضہ کیا اس کے بعد انہوں نے کچھ جھوٹے سچے وعدے یا زور و زبردستی کے ساتھ دنیا بھر سے یہودیوں کو اس غصب شدہ زمین پر اکھٹا کیا تو اس طریقے سے اسرائیل نامی ایک جعلی ریاست معرض وجود میں آئی۔
البتہ صہیونیوں نے دنیا بھر سے یہودیوں کو اکٹھا کرنے کے لیے کسی ایک قاعدہ و قانون کی پیروی نہیں کی۔ مثال کے طور پر اتھیوپیا کے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کرنے کے لیے ان کی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کا وعدہ دیا۔ امریکہ کے ثرتمند یہودیوں کے ساتھ سرزمین موعود اور ظہور مسیح کی بات کی وغیرہ وغیرہ(۴) یہی وجہ ہے کہ اسرائیل میں دنیا بھر سے اکٹھا ہونے والے یہودی مختلف اہداف و مقاصد اور مختلف طرز تفکر کے ساتھ وہاں جمع ہوئے ہیں لہذا صہیونی معاشرے میں پایا جانے والا یہ بنیادی اختلاف صہیونی ریاست کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے جو عنقریب اسے لے ڈوبے گا۔
حواشی:
۱ – سایت موعود، اخبار، اخبار سیاسی، صهیونیسم و تفاوت آن با یهود، کد خبر: ۸۶۸۲، www.mouood.org.
۲- https://kheybar.net/?p=3627.
۳- https://www.mashreghnews.ir/news/239218.
۴- فصلنامه کتاب نقد، هویت یهود از شعار تا واقعیت، دهقانی نیا، امیررضا، پاییز۱۳۸۳، شماره ۳۲، ص ۲۹۲-۲۶۸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بحری قزاقوں نے برطانیہ کو کس طرح بچایا؟

  • ۳۸۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ؛
برطانیہ نے اسی زمانے میں جو اگلا قدم سمندروں پر تسلط جمانے اور ہسپانیہ اور پرتگال کو پیچھے دھکیلنے کے لئے اٹھایا وہ ہسپانیہ کے بادشاہ فلپ دوم ([۱]) کے عظیم بحری بڑے کو شکست دینے سے عبارت تھا۔ فلپ دوم جو لاطینی امریکہ سے مشرق بعید تک، وسیع سرزمینوں پر حکمرانی کررہا تھا، اور اپنی بحریہ کے خلاف برطانوی قزاق فرانسس ڈریک کے حملوں سے تنگ آگیا تھا، نے جزیرہ برطانیہ پر حملے کا حکم دیا۔
طے یہ پایا تھا کہ عظیم ہسپانوی بحریہ خلیج ٹیمز پر حملہ کرکے برطانوی سرزمین پر چڑھ دوڑنے کے لئے ضروری امکانات فراہم کرے اور بالآخر ۱۵۰۰۰ پورپی سپاہی برطانیہ میں اتر کر لندن کی طرف پیشقدمی کریں۔
حملہ آور پسپانوی بحری بیڑا ۱۳۰ جنگی جہازوں اور ۲۰ ہزار ملاحوں پر مشتمل تھا۔ یہ بیڑا بغیر کسی رکاوٹ کے  آبنائے ڈوور ([۲]) پہنچا لیکن نہایت خطرناک مقام پر فرانسس ڈریک کے حملے سے دوچار ہوا۔ ڈریک نے رات کی تاریکی میں ۳۰ توپوں سے لیس چھوٹی چھوٹی کشتیوں سے ہسپانوی جہازوں پر پیچھے سے حملے کئے اور جہاں تک ممکن تھا انہیں نشانہ بنایا اور لوٹ لیا۔
ہسپانوی بحریہ پسپا ہوکر فرانسیسی بندرگاہ “کالے” ([۳]) میں رک گئی اور اس بار برطانیہ کے گرد کا چکر کاٹ کر ایک بار پھر بخت آزمائی کا فیصلہ کیا لیکن اس مرتبہ بھی اس شدید آندھی اور انگریزی کشتیوں کے چھاپہ مار حملہ کا سامنا کرنا پڑا اور بہت سے جہاز آئرلینڈ کی پتھریلی چٹانوں سے ٹکرا کر تباہ ہوئے اور ملاحوں کا قتل عام ہوا اور جو ملاح زندہ بچے تھے انہیں آئرلینڈ کے مقامی لوگوں نے قتل کیا۔
بالآخر ہسپانوی بیڑا ـ جبکہ اپنی نصف نفری اور جہازوں کو کھو چکا تھا ـ واپس اپنی بندرگاہ پر واپس آیا۔ اس شکست کے بعد ہسپانوی بحریہ کبھی بھی اپنی کمر کو سیدھا نہیں کرسکا اور دنیا کے سمندروں پر تسلط کو عملی طور پر برطانیہ کے سپرد کردیا۔
دوسری طرف سے برطانیہ نے ایران کی صفوی سلطنت کے تعاون سے بندر گمبرون ([۴]) کو پرتگیزوں سے خالی کروا کر انہیں خلیج فارس سے مار بھگایا اور یوں ہندوستان اور مشرق بعید میں پرتگیزی نوآبادیاتی دور کے اختتام کی بنیاد پڑی۔ بس تھوڑے سے وقت کی ضرورت تھی کہ برطانیہ ہندوستان کے علاقے پر مسلط ہوکر دنیا کی اصلی استعماری طاقت میں بدل جاتا۔
عظمت جو بحری ڈاکؤوں کے مرہون منت تھی
یہ مختصر سی تاریخ گواہ ہے کہ برطانیہ کے استعمار اور دولت سمیٹنے کا اہم ترین دور الیزبتھ اول اور سمندری قزاقوں کے براہ راست تعاون کا نتیجہ تھا۔
لوٹ مار اور ڈاکہ زنی سے حاصل ہونے والی اصل آمدنی البتہ کبھی بھی برطانوی عوام کی جیب میں نہیں گئی بلکہ بلاواسطہ طور پر نجی کمپنیوں کی تجوریوں میں جاتی رہی اور ان تمام کمپنیوں میں انگریزی شاہی دربار بنیادی حصہ دار ([۵]) تھا۔
ان ہی غارتگریوں اور ڈکیتیوں ہی سے حاصل ہونی والی کمائی نے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برطانیہ میں صنعتی انقلاب کو ممکن اور مغرب کو دنیا کا پہلے درجے کا سرمایہ دار بنایا۔ شاید اس داستان کا مضحک ترین نکتہ یہ ہو کہ برطانیہ نے فرانسس ڈریک کے جہاز کا ایک مکمل نمونہ تعمیر کرکے دریائے ٹیمز میں اتارا۔ وہی جہاز جو ڈریک کی ڈاکہ زنی کے عروج کے زمانے میں گولڈن ہنڈ ([۶]) کہلاتا تھا۔ یہ جہاز شاید برطانوی عوام نیز دنیا بھر کے انسانوں کو یاددہای کروا رہا ہے کہ جو کچھ بھی برطانیہ کے پاس ہے وہ سب بحری ڈاکؤوں کی کمائی ہے۔ چوری اور لوٹ مار سے حاصل ہونے والا مال، جس نے برطانیہ کو پانچ بڑی طاقتوں کے زمرے میں لاکھڑا کیا ہے؛ اور خبردار کررہا ہے کہ آج کا برطانیہ فرانسس ڈریک جیسے ڈاکو کو اپنا ہیرو سمجھتا ہے لہذا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس نے چوری اور ڈکیتی سے توبہ کی ہو، لہذا خبردار رہئے، گوکہ یہ قزاق اب کمزور ہوچکا ہے لیکن آج بھی قزاق ہی ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں مقبوضہ جبل الطارق کے ساحل پر ایران کے سوپر ٹینکر پر برطانوی کے حکمران قزاقوں کے حملے کے بعد ایرانی طلبہ نے تہران میں برطانوی سفارتخانے کے سامنے مظاہرہ کیا اور برطانوی سفیر کو بحری قزاقوں کا جھنڈا بطور تحفہ عطا کیا!
حواشی
[۱]۔ Philip II of Spain
[۲]۔ Strait of Dover
[۳]۔ Port of Calais
[۴]۔ موجودہ بندر عباس جس کو پرتگیز سامراجیوں نے کیکڑوں کی بہتات کی وجہ سے کیکڑوں کی بندرگاہ (Porto de Camarão) کا نام دیا تھا جس کی وجہ سے ـ شاید ـ مقامی لوگ اسے “گمبرون” کہتے تھے۔
[۵]۔ Shareholder
[۶]۔ Golden Hind
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: مہدی پورصفا
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

وہ زمانہ جب بحری قزاق الیزبتھ کے اخراجات پورے کرتے تھے

  • ۴۳۶

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: گزشتہ سے پیوستہ
الیزبتھ کے برسراقتدار آنے کے وقت انگلستان کی آبادی بیس لاکھ سے بھی کم تھی اور الیزبتھ کی سلطنت کے آغاز میں لندن کی آبادی ۹۰۰۰۰ نفوس پر مشتمل تھی جو کہ اس کی سلطنت کے آخر میں ڈیڑھ سے دو لاکھ تک بڑھ گئی اور آبادی میں یہ اضافہ ہزاروں بحری قزاقوں اور بحر اوقیانوس کے پار علاقوں پر قبضے کے شوقین مہم جوؤں کی وسیع نقل مکانی کا نتیجہ تھا۔ لندن ان دنوں شدید طبقاتی نظام سے متاثر تھا جس کے مغرب میں صاحب ثروت لوگوں کا بسیرا تھا جبکہ مشرقی علاقہ بےشمار غرباء اور مساکین کا مسکن بنا ہوا تھا اور اس کی واحد بندرگاہ بھی دریائے ٹیمز ([۱]) کے ساحل پر واقع تھا جس کی مالک ایسٹ انڈیا کمپنی تھی۔
الیزبتھ بر سر اقتدار آئی تو انگلستان کی معاشی حالت ناگفتہ بہ تھی اور دربار کے اخراجات اس زمانے میں تین لاکھ پونڈ تک پہنچ چکے تھے جنہیں پورا کرنا مشکل ہورہا تھا چنانچہ ملکہ برطانیہ نے سب سے آسان راستے کا انتخاب کیا اور یہ آسان راستہ بحری قزاقوں کے ساتھ معاہدہ اور سمجھوتہ کرکے دوسری سرزمینوں پر قبضے کا منصوبہ تھا۔
ملکہ کے درندہ کتّے کون تھے؟
بحری جہاز لوٹنے کے سلسلے میں ملکہ الیزبتھ اول کے دو اصلی اتحادی سر جان ہاکنز ([۲])  و سر فرانسس ڈریک ([۳]) تھے اور یہ دونوں کیریبین سمندر کے قزاقوں میں شامل تھے اور چالیس سال تک سمندروں میں ملکہ الیزبتھ اول کے درندہ کتے سمجھے جاتے تھے۔
ہاکنز ـ جس کو جنوبی امریکہ کے ساتھ برطانیہ کی آزاد تجارت کا بانی کہا جاتا ہے۔ غلاموں کی تجارت کی سرپرستی الیزبتھ کی طرف سے اسی شخص کو سونپ دی گئی تھی۔ اس شخص نے پہلی بار سنہ ۱۵۶۳ع‍ میں ملکہ الیزبتھ کے شخصی حکم اور لندن مارکیٹ کے سرمائے پر، تین جہازوں اور ۱۰۰ ملاحوں کے ساتھ افریقی ملک سیرالیون ([۴]) سے ۵۰۰ افراد کو غلام بنا کر یا اغوا کرکے، ہیٹی ([۵]) میں فروخت کردیا اور پھر اپنے جہازوں پر سامان تجارت لاد کر لیورپول ([۶])  پہنچا دیا۔ ہاوکینز کا اگلا سفر گینیا [۷] کے سواحل کی جانب تھا۔ اس “سامان تجارت” پر ۳۰۰۰ پاؤنڈ سرمایہ کاری کی گئی تھی جس کا ایک تہائی حصہ ملکہ الیزبتھ نے ادا کیا تھا اور اس تجارت کی کمائی میں وہ براہ راست شریک تھی۔ یہ غلاموں کی برطانوی تجارت کا آغاز تھا جو انیسویں صدی عیسوی کے وسط تک جاری رہی۔ [اور آج بھی مختلف شکل و صورت میں جاری ہے، کیونکہ کسی وقت قزاقوں کی سلطنت کو تیسری دنیا کے انسانوں کی جسمانی طاقت کی ضرورت ہے اور آج ان کی فکری اور فنی طاقت کی ضرورت ہے جس سے وہ آج بھی فائدہ اٹھا رہی ہے]۔
دوسری طرف سے فرانسس ڈریک بھی الیزبتھ کی سرپرستی اور سرمایہ کاری کے سائے میں بحری رہزنی میں مصروف تھا۔ ڈریک ـ جس نے اپنے کام کا آغاز ایک باربردار بحری جہاز سے کیا تھا ـ ہسپانوی جہازوں کو لوٹنے کے لئے ایک بیڑا تشکیل دیا اور ہسپانوی جہازوں پر حملوں اور قتل و غارت اور لوٹ مار کا آغاز کیا۔ اس بیڑے کی تشکیل کے لئے مجموعی سرمایہ ۵۰۰۰ پاؤنڈ تک پہنچتا تھا جس کا آدھا حصہ ملکہ الیزبتھ نے ادا کیا جس سے قزاقوں کی سلطنت کی ملکہ نے چھ لاکھ پاؤنڈ کا خطیر سرمایہ کمایا۔
ڈریک نے صرف ایک حملے میں ایک پسپانوی جہاز کو لوٹ کر ۲۵۰۰۰ پیسو ([۸]) خالص سونا ہتھیا لیا۔ نیز یہ شخص غلاموں کی تجارت میں بھی کردار ادا کرتا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لئے پرتگال کی افریقی نوآبادیوں کے دیہی علاقوں کو لوٹ لیا کرتا تھا۔ ہسپانوی قافلوں پر ڈریک کے مسلسل حملوں کے باعث شاہ ہسپانیہ نے اس کے سر کے لئے انعام مقرر کیا جبکہ دوسری طرف سے ملکہ انگلستان نے سنہ ۱۵۸۰ع‍ میں  اس کو “سر Sir” کا خطاب عطا کیا اور ۱۵۸۸ع‍ میں یہ سمندری ڈاکو برطانوی بحریہ کا نائب کمانڈر مقرر ہوا۔
جیمز مل ([۹]) لکھتا ہے کہ فرانسس ڈریک سنہ ۱۵۸۰ع‍ میں انگلستان واپس آیا تو ملکہ الیزبتھ نے اس کا استقبال کیا جبکہ ڈریک ہسپانوی جہازوں سے لوٹی ہوئی ۵۰۰۰۰۰ پاؤنڈ سونا اور بڑی مقدار میں مال و اسباب ساتھ لایا تھا اور یوں ملکہ صاحبہ کے دربار کے پورے سال کے اخراجات پورے ہو گئے۔
مؤرخ ارنسٹ مینڈل ([۱۰]) لکھتا ہے: سنہ ۱۵۵۰ع‍ کے لگ بھگ، انگلستان کو سرمائے کی شدید قلت کا سامنا تھا؛ تو پسپانیہ کے بحری بیڑوں کے لوٹنے کے لئے برطانیہ کی طرف سے بحری قزاقی ـ جو کارپوریشنوں اور مشترکہ کمپنیوں کی صورت میں انجام پاتی تھی ـ نے اس صورت حال کو اچھی طرح سے بدل دیا۔ انجام پانے والے تخمینوں کے مطابق برطانیہ کے سرکاری بحری ڈاکؤوں نے ملکہ الیزبتھ کے زمانے میں ایک کروڑ بیس لاکھ پاؤنڈ کی براہ راست دولت اس ملک کے خزآنے میں منتقل کردی۔
قدم بڑھاؤ نئی دنیاؤں پر قبضہ کرنے کے لئے
ملکہ الیزبتھ کا دوسرا اقدام ـ جو پھر بھی سمندری قزاقوں اور داکؤوں کی مدد سے شروع ہوسکا ـ جیووانی کابوتو کی مہم جوئیوں کے تسلسل میں نئی سرزمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی ۔ سنہ ۱۵۸۵ع‍  میں سر والٹر ریلے ([۱۱]) نے ملکہ الیزبتھ کی براہ راست حمایت کے بدولت موجودہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سرزمین پر پہلی برطانوی نوآبادی پر قبضہ کیا اور ملکہ الیزبتھ اول ـ جو اس وقت کنواری ملکہ!! ([۱۲]) کہلواتی تھی ـ کے اس لقب کی مناسبت سے اس نوآبادی کا نام “ورجنیا” ([۱۳]) رکھا۔
ریلے نے سرمائے جمع کرنے کے لئے متعدد کمپنیاں قائم کی گئیں جن میں سب سے پہلی کمپنی ورجینیا کمپنی تھی جس نے پہلی بار زرعی کھیتیاں افریقہ سے لائے گئے غلاموں کی افرادی قوت کی بنیاد پر تشکیل دیں۔ ان ہی دریافتوں کے تسلسل میں نیو فاؤنڈ لینڈ، برمودا، بارباڈوس، بہاماس، میساچوسٹس، اینٹیگوا، بیلیز اور جمیکا سمیت بےشمار نوآبادیاں دریافت ہوئیں۔
حواشی
[۱]۔ River Thames
[۲]۔ John Hawkins (naval commander)
[۳]۔ Francis Drake
[۴]۔ Sierra Leone
[۵]. Haiti
[۶]۔ Liverpool
[۷]۔ Guinea
[۸]۔ Peso
[۹]۔ James Mill
[۱۰]۔ Ernest Mandel
[۱۱]۔ Walter Raleigh
[۱۲]۔ Virgin Queen
[۱۳]۔ Virginia
…………..

 

کشمیر اور فلسطین کی مشترکہ سرنوشت

  • ۳۱۴

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: کشمیر اور فلسطین کی ناگوار اور تلخ تاریخ نے عالم اسلام اور دنیائے عرب کے دلوں کو مجروح کر دیا ہے۔ یہ دونوں مسلمانوں کی ایسی سرزمینیں ہیں جو ۷۰ سال سے غاصب سامراجی طاقتوں کے ظلم و جور کی چکی میں پس رہی ہیں۔ اور ظلم و جور کے ایسے ایسے دردناک واقعات تاریخ نے اپنے دامن میں ثبت کئے ہیں جن کو سن کر بدن لرز اٹھتا ہے اور روح کانپ جاتی ہے۔ ۷۰ سال قبل امت مسلمہ کے یہ دونوں دھڑکتے دل اس وقت چکنا چور ہوئے جب بوڑھے استعمار برطانیہ نے ان پر غیروں کو مسلط کرنے کی سازش رچائی۔
برطانیہ کی ظالمانہ اور شیطانی سنت یہ ہے کہ وہ جس اسلامی علاقے سے اپنا قدم باہر رکھتا ہے وہاں آگ کی چنگاری پھینک دیتا ہے اور پھر دور سے اس پر تیل چھڑکتا رہتا ہے یہاں تک کہ یہ چنگاری ایسی بھڑکتی آگ میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ جسے مہار کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ کشمیر اور فلسطین دو ایسی اسلامی سرزمینیں ہیں جن سے نکلتے وقت برطانیہ نے آگ کی چنگاریاں پھینک دیں اور آج تک ان پر تیل چھڑکتا آیا ہے۔ غیروں کو ان پر مسلط کر کے، ایجنسیوں کو فعال کرکے، انہیں اسلحے سے لیس کر کے وہاں کے مقامی لوگوں کے خون سے ندیاں بہاتا اور ان کی عصمتوں کی دجھیاں اڑاتا آیا ہے۔ آج نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف بھارت پر برسر اقتدار انتہا پسند تنظیم ’آر ایس ایس‘ کشمیر پر اپنا مکمل تسلط جما رہی ہے اور دوسری طرف یہودی انتہا پسند حکومت فلسطین کو مکمل طور پر ہتھیانے میں کوشاں ہے۔
فلسطین اور کشمیر دو ایسی سرزمینیں ہیں جن پر تقریبا ایک ہی سال افتاد پڑی۔ اس لیے کہ ۱۹۴۷ میں ہی برطانوی سامراج نے فلسطین کو تقسیم کرنے اور کشمیر کو متنازع جگہ قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک عظیم جنگ کے بعد ہزاروں مظلوم عوام بے گھر ہوئے، سیکڑوں قتل عام ہوئے اور ہندوستان کشمیر کے وسیع علاقے پر مسلط ہو گیا اور اپنی فوج کے ذریعے اس علاقے میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا انہیں اذیتیں پہچنانا شروع کر دیں اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ جس کی وجہ سے کشمیر میں مسلمانوں نے اپنے تحفظ کی خاطر بندوق اٹھا لی اور بھارتی فوج کا مقابلہ کرنا چاہا لیکن بھارت نے اس دفاعی تدبیر کو دھشتگردی کا نام دیا اور کشمیروں کو دھشتگرد قرار دے کر ہندوستان کے ہندووں کو کشمیروں کے خلاف اکسایا۔
دوسری جانب فلسطین میں برطانیہ نے اپنا شیطانی حربہ اپناتے ہوئے انتہا پسند یہودیوں کو فلسطینیوں پر مسلط کیا اور دنیا بھر کے یہودیوں کا فلسطین ہجرت کے لیے راستہ کھول دیا۔ اور انہیں اسلحے سے لیس کرکے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف کھڑا کر دیا۔ اپنے ٹریننگ سنٹروں کے دروازے یہودیوں پر کھول دیے اور مسلمانوں کی زمینیں غصب کر کے یہویوں کے لیے مکانات تعمیر کروا دیے۔ اور آخر کار خون کی ندیاں بہا کر اور مسلمانوں کا قتل عام کر کے انہیں سرزمین فلسطین سے نکال باہر کیا اور صہیونی ریاست ’اسرائیل‘ کو تشکیل دے دیا۔ اس روز سے آج تک اسرائیل فلسطین میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ملت فلسطین کی نابودی کے در پہ ہے۔
کشمیر اور فلسطین کی مشترکہ سرنوشت
آج کشمیر اور فلسطین ایک ہی سرنوشت سے دوچار ہیں ایک ہی طرح کی مصیبت میں گرفتار ہیں دونوں اپنے تشخص کو بچانے اور اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے متعین کرنے کے لیے میدان جنگ میں برسرپیکار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں کی تقدیر میں یہی لکھا ہوا تھا کہ ایک ہی سال میں ایک ہی دشمن کے ذریعے ان کے خلاف سازش رچائی جائے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کا منصوبہ بنایا جائے۔ اس لیے کہ ان کے پیچھے جو خفیہ ہاتھ ہیں وہ ان کی نابودی چاہتے ہیں۔ اور یہ اس وقت ہوا جب بھارت اور صہیونی ریاست دونوں کو امریکہ کی جانب سے اطمینان حاصل ہو گیا کہ کوئی بھی ان کے مقابلے میں نہیں آئے گا اور ان کے خلاف زبان اعتراض نہیں کھولے گا اور عرب اور مسلمان تو خود آپس میں اتنا الجھے ہوئے ہیں کہ ان کے اندر تو کسی دشمن کی دھمکی کا جواب دینے کے لیے ذرا سی سکت بھی باقی نہیں رہی۔
ایک ہاتھ اور ایک فکر
ہمیں یہ یقین کر لینا چاہیے کہ وہ ہاتھ جو جگہ جگہ ہمارے حقوق اور ہمارے مقدسات کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے اور وہ فکر جو ہمارے اسلامی ممالک کی بربادی پر تلی ہوئی ہے وہ ایک ہی ہاتھ اور ایک ہی فکر ہے۔ جنگ و جدال اور فتنہ وفساد جس کو میراث میں ملا ہے۔ ایک طرف کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ ہٹوا کر اور دوسری طرف فلسطین میں صدی کی ڈیل کا منصوبہ رچا کر شائد وہ اپنی آخری آرزووں کو پہنچنا چاہتے ہیں لیکن انہیں جان لینا چاہیے کہ یہ دونوں سرزمنیں ہمارے عقائد کا حصہ ہیں ہماری عزت و آبرو ہیں ہماری قوم جان تو دے سکتی ہے مگر عزت نہیں لٹا سکتی ۔ جنہوں نے یہ کھیل کھیلا ہے وہ بہت جلد اپنے کئے پر پچھتائیں گے۔ خدا کے فضل و کرم سے وہ صبح بہت نزدیک ہے جب وعدہ الہی محقق ہو گا کامیابی کی نوید آئی گی اور ہم سرزمین کشمیر و فلسطین میں آزادی کا پرچم لہرائیں گے۔

بقلم ڈاکٹر مصطفیٰ یوسف اللداوی