-
Sunday, 22 November 2020، 02:42 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: وہ اسباب و عوامل جو یہودی معاشرے کو پاش پاش کرتے اور انہیں ایک دوسرے سے بکھیرتے ہیں؛
قومیت
یہودی قانون کے مطابق صرف یہودی ماں کے بطن سے پیدا ہونے والا یہودی کہلاتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو آج دنیا میں رائج معاشرتی قوانین کے بالکل خلاف ہے اس لیے کہ آج دنیا میں بیٹے کو باپ کے ذریعے متعارف کرایا جاتا ہے نہ ماں کے ذریعے۔ یہودیوں میں اگر باپ عیسائی ہو اور اس کا بیٹا بھی بھلے عیسائی کیوں نہ ہو جائے لیکن یہودی رہے گا چونکہ اس کی ماں یہودی تھی، اور یہودی معاشرہ اسے یہودی ہی مانتا ہے۔ اسی بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ یہودیوں کے مختلف گروہ حتیٰ ظاہری اعتبار سے بھی کھلا اختلاف رکھتے ہیں۔ قومیت کے اعتبار سے کوئی خود کو سفاردی کہلواتا ہے اور کوئی اشکنازی، کوئی مشرقی یہودی اور کوئی عرب یہودی۔ اسی وجہ سے اسرائیل میں یہودیوں کو پہلے درجے کے شہری اور دوسرے درجے کے شہری میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ (۱)
سفاردی یہودی؛ یہ دراصل وہ یہودی ہیں جنہیں ہسپانیہ اور پرتگال سے ۱۵ صدی عیسوی میں نکالا گیا تھا لیکن دھیرے دھیرے سفاردیت کا مفہوم پھیلتا گیا اور شمالی افریقہ، مشرقی ایشیا نیز عرب ممالک کے رہنے والے یہودیوں کو بھی سفاردی یہودی کہا جانے لگا۔ ان یہودیوں کی زبان عبرانی اور لادینویی زبان ہے۔(۲) مغربی ممالک کے یہودی، خود کو برتر قوم اور سرمایہ دار یہودی کہلواتے ہیں۔ یہ جماعت آسانی سے تمام مغربی ممالک میں آ جا سکتی ہے اس کی مذہبی رسومات دیگر یہودیوں سے مختلف ہیں۔ یہ گروہ دیگر گروہوں کے ساتھ کبھی بھی نسل اور قومی روابط نہیں رکھتا اس لیے کہ انہیں پست اور دوسرے درجہ کا یہودی سمجھتا ہے۔ معروف فلاسفر “اسپینوزا” اور “بنجامین ڈزرائیلی” (برطانیہ کا سابق وزیر اعظم) اسی گروہ کا حصہ تھے۔
البتہ اس نکتہ کو نہیں بھولنا چاہیے کہ مشرقی اور عرب ممالک کے یہودیوں کو مذہبی رسومات میں سفاردویوں کے ساتھ بعض شباہتیں رکھنے کی وجہ سے انہیں سفاردی کہا گیا۔ حالانکہ نہ ان کی زبان کوئی ایک زبان تھی اور نہ ہی ان کا ماضی اور تاریخ سفاردی یہودی گروہوں کے ساتھ ملتا جلتا تھا۔
اشکنازی یہودی؛ یہ اصطلاح در حقیقت جرمنی کے یہودیوں پر اطلاق ہوتی تھی لیکن دھیرے دھیرے اس کے مہفوم میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور مغربی اور امریکی یہودیوں کو بھی اشکنازی یہودی کہا جانے لگا۔ ان کی زیادہ تر زبان ملکی زبان تھی نہ کہ مذہبی۔ یہ گروہ اپنے دین کی نسبت زیادہ متعصب کہلاتا ہے جبکہ دوسرے یہودی گروہ انہیں انتہا پسند یہودی کہتے ہیں۔ صہیونی جماعت اسی گروہ میں سے وجود میں آئی اور یہی گروہ صہیونیت کی حمایت کرتا ہے۔ (۳)
عقائد
یہودی مذہب تمام یہودی معاشرے (اسرائیلی اور غیر اسرائیلی) کو آپس میں جوڑنے کا اہم عنصر ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل کی موجودیت اس قوم کی مذہبی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ اس بنا پر علمائے یہود اپنے دینی متون کی تفسیر میں اس طرح احتیاط سے کام لیتے ہیں کہ حتیٰ بے دین اور سیکولر یہودیوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔
لیکن صہیونی اپنی تقسیم بندی میں یہودیوں کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں؛ نسلی یہودی، مذہبی یہودی۔ اور مذہبی یہودیوں کو تین گروہوں؛ بنیاد پرست (آرتھوڈاکس )، اصلاح پسند اور قدامت پسند میں تقسیم کرتے ہیں۔ البتہ اس درمیان کئی طرح کی اقلیتیں بھی پائی جاتی ہیں۔
اصلاح پسند یہودی (۴)
یہ جماعت اٹھارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں عصر روشن خیالی کے بعد جب یہودیت میں فلسفیانہ سوچ اور عقلیت پسندی کا رواج پیدا ہوا، وجود میں آئی۔ جرمنی کے موسی منڈلسن (۵) اصلاح پسند یہودی جماعت کے قدماء میں سے تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ کتاب مقدس کو جرمنی زبان میں ترجمہ کیا۔ اصلاح پسند یہودی کہ جو درحقیقت لیبرل اور سیکولر گروہوں کا بھرپور تعاون کرتے ہیں بہت سارے عقائد اور قومی و مذہبی رسومات کی مخالفت کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تعلیمات کی نئی تشریح کرنا شروع کر دی۔ من جملہ ان کی وہ اصلاحات جو شدید تنقید کا باعث بنیں یہ تھیں:
حقوق نسواں کی حمایت؛ اس سے قبل یہودی معاشرے میں عورتوں کے پاس کوئی اختیارات نہیں تھے، عورتیں بہت سے سماجی اور مذہبی پروگراموں میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں رکھتی تھیں۔ لیکن اصلاح پسند جماعت نے عورتوں کو اتنی چھوٹ دی کہ آج یہودی عورتیں ربی (خاخام) بھی بن سکتی ہیں اور حتیٰ عبادت کے لیے مخصوص لباس بھی پہن سکتی ہیں۔
ہم جنس پرستی؛ یہ ایک نئی بحث ہے جو کئی سالوں سے اسرائیلی معاشرے کے دامن گیر ہے اور اصلاح پسند گروہ اس کی سختی سے حمایت کر رہا ہے۔ انہوں نے حتیٰ ایسے قوانین بھی بنائے ہیں جو ہم جنس پرستی کو ربیوں (خاخاموں) کے لیے بھی جائز سمجھتے ہیں اور وہ اپنی عبادت گاہوں میں اس شرمناک فعل کے لیے مخصوص جگہ بنا سکتے ہیں۔
طلاق کا قانون؛ یہودی مذہبی قوانین کے مطابق، طلاق ایک پیچیدہ عمل ہے جو صرف شوہر کے ذریعے ہی انجام پانا چاہیے۔ اور اگر یہ عمل مکمل طور پر یہودی روایتی آئین کے مطابق انجام نہیں پاتا تو طلاق محقق نہیں ہو گا اور رشتہ زوجیت باقی رہے گا۔ اصلاح پسند گروہ نے اس عمل میں بھی دخالت کی اور زن و مرد کے حقوق میں مساوات کا نعرہ لگایا اور طلاق کے عمل کو ملکی قوانین کے مطابق انجام دینا شروع کر دیا۔
غیروں کے ساتھ شادیاں؛ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کی تمام یہودی فرقے مخالفت کرتے ہیں حتیٰ خود اصلاح پسند گروہ میں بھی اس کے مخالفین پائے جاتے ہیں اس کے باوجود اصلاح پسند جماعت غیر یہودیوں کے ساتھ شادی کو جائز سمجھتی ہے اور خاص شرائط میں اپنے مذہبی رہنما کو بھی غیر یہودی کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اصلاح پسند بطور کلی عصر مسیحا، سرزمین موعود کی طرف واپسی، جلاوطنی وغیرہ جیسے مفاہیم کے مخالف ہیں۔ اس لیے کہ ان موارد کو نسل پرستانہ تعلیمات کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اسرائیل کے موجودہ خاخام کے نظریات پر بھی متفق نہیں ہیں۔ (۶)
بنیاد پرست یہودی (۷)
بنیاد پرستی ایک ایسی اصطلاح ہے جو بطور کلی روایتی شاخوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ جماعت دوسرے تمام مذہبی گروہوں کے مقابلے میں زیادہ سخت اور روایتی ہے اور تلمود اور توریت کو خداوند متعال کا کلام مانتی ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ جماعت مکمل طور پر اصلاح پسند گروہ کی مخالف اور دشمن ہے۔ بنیاد پرست یہودی قائل ہیں کہ وہ منتخب قوم ہیں اور مسیح کے ذریعے صرف انہیں حکومت کا حق حاصل ہے۔ یہ جماعت صہیونی تحریک کے سخت حامی ہے۔ (۸)
قدامت پسند یہودی (۹)
در حقیقت یہ جماعت اصلاح پسندی اور جدیدیت پسندی کے مقابلے میں وجود میں آئی۔ قدامت پسند یہودی، ایک طرف سے روایتی دینی عناصر پر زور دیتے ہیں اور دوسری طرف سے ماڈرن دنیا کے ساتھ ان روایتی رسومات کو ہم آہنگ کرنے کی فکر بھی کرتے ہیں لیکن نہ ہر قیمت پر، اور نہ اصلاح پسند اور انتہا پسند یہودیوں کی روش سے بلکہ دینی اصول و مبانی کو محفوظ رکھتے ہوئے موجودہ زمانے کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس جماعت کے ایک سربراہ “زاکاریا فرانکل” کے بقول “درمیانی اصلاحات ایک ناگزیر عمل ہے لیکن یہ عمل اس طریقے سے انجام پانا چاہیے کہ دینی اصول اور ماضی کی روایتی رسومات محفوظ رہیں”۔(۱۰)
حواشی
۱ – https://www.farsnews.com/news/8807271904.
۲- گویشی رومیایی متعلق به قرن ۱۵م.
۳- https://rasekhoon.net/article/show/127176.
۴- Reform Judaism
۵- Moses Mendelssohn
۶- فصلنامه الاهیات تطبیقی، جنبش اصلاح طلبی یهود و چالشهای آن در دوره مدرن، حسین سلیمانی، سید ابراهیم موسوی، سال ششم، شماره چهاردهم، زمستان ۱۳۹۴، ص۱۴۸-۱۳۹٫
۷- Orthodox Judaism
۸- http://jscenter.ir/jewish-studies/sociology-of-jews/6720
۹- Conservative Judaism
۱۰- http://tahoor.com/fa/Article/View/115243.