-
Friday, 25 September 2020، 09:30 PM
-
۳۷۷
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پچھلے کچھ دنوں، اسلامی تحریک الفتح میں فلسطینی قومی مفاہمت کے نئے سربراہ ، ’جبریل رجوب‘ نے تمام عرب رہنماؤں کو اہم پیغامات ارسال کیے ہیں جن میں انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ فلسطینی امن ٹرین صدارتی، پارلیمانی اور قومی انتخابات کی جانب حرکت میں آ چکی ہے اور اب کوئی اسے روک نہیں سکتا۔
جبریل رجوب جو تحریک حماس کے ساتھ مکمل بات چیت کے لئے استنبول گئے ہوئے ہیں اپنے روایتی حریف ’محمد دحلان‘ کی جگہ لینے کے لیے مشترکہ عربی، اسرائیلی اور امریکی منصوبے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
محمد دحلان امارات، سعودی عرب، مصر اور اسرائیل کے حامیوں میں سے ہیں۔ جبریل رجوب موجودہ حالات میں حماس کو اپنی نجات کا راستہ سمجھتے ہیں اور بخوبی واقف ہیں کہ مفاہمت اور انتخابات اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا بہترین اور سالم طریقہ ہے۔ چونکہ الفتح خود اندرونی طور پر انتشار کا شکار ہے۔ جبکہ حماس تاحال ہم آہنگ اور مضبوط ہے، اور اختلاف رائے تحریک کو تقسیم نہیں کرسکا، اور اگر فلسطینی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہوتے ہیں تو ، دنیا اور عرب لامحالہ ایک ایسی حکومت کے مقابلے میں کھڑے ہوں گے جو قانونی انتخابات سے وجود میں آئی ہو۔ اگرچہ فلسطینی فریقوں کو یقین ہے کہ اتحاد اور قانونی اداروں کی بحالی سے کوئی فرار نہیں ہوگا ، تاہم یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ فلسطینی جماعتوں اور گروپوں میں سے ہر کوئی اختلافات کا طبل بجائے۔ مثال کے طور پر ، حماس الفتح کی ضروریات سے بخوبی واقف ہے، لہذا وہ اپنے شرائط کو اس تحریک پر مسلط کرسکتی ہے۔ حالانکہ ان شرائط پر حد سے زیادہ اصرار مذاکرات کی ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔ حماس اب یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ امن اور صلح کی مخالفت کے اس کے اصول درست تھے، اور یہ آئندہ انتخابات میں اس کی بڑے پیمانے پر عوامی حمایت کی ضمانت دے سکتا ہے، کیونکہ عوام کبھی بھی ان لوگوں کی تلاش نہیں کریں گے جنھوں نے خود ہی اپنے عہدوں کی شکست کا اعتراف کیا ہے۔
یقینا، ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات الیکشن سے پہلے دینے کی ضرورت ہے ، جیسے: اگلے انتخابات کی زیادہ سے زیادہ حد کیا ہے؟ کیا اوسلو معاہدہ، جو ان کے اصل مالکان نے قابض حکومت کے ذریعہ پامال کرنے کے بعد فراموش کر دیا تھا، کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟ اور آخر کار سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کے شرائط کے مطابق ، مغربی کنارے ، غزہ اور قدس میں بیک وقت انتخابات کا انعقاد ممکن ہے؟ کیا صہیونی حکومت قدس میں انتخابات کرانے کی اجازت دے گی - جس کا امکان بہت کم ہے؟ کیا قدس کو انتخابات سے خارج کر دیا جائے گا یا اس کے لئے علیحدہ طریقہ کار پر غور کیا جائے گا؟ تحریک فتح کے پاس اپنے خدشات ہیں۔ کیا دحلان اور ان کے حامیوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے گا؟ اگر وہ پچھلی پارلیمنٹ کی بنسبت زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ کیا فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ، محمود عباس کی سربراہی میں ، رجوب اور ان کی اہم فکر جماعتیں دحلان کے ہم خیال ممبروں یا حماس تحریک میں اپنے مخالفین سے اتحاد کریں گے؟
ان سوالوں کے جواب دینا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ لیکن یہ سوالات اٹھائے جانے کا جو چیز باعث بنے ہیں وہ رجوب کے حالیہ بیانات ہیں جن میں انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو انتخابات سے کوئی روک نہیں سکتا۔ اس دوران میں ایک سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا صہیونی حکومت قدس یا مغربی کنارے میں انتخاب کی اجازت دے گی؟ اور کیا یہ انتخابات سالم، شفاف اور سب کے یہاں قابل قبول ہوں گے؟
فلسطین کی موجودہ صورتحال خوفناک اور سمجھ سے باہر ہے ، لہذا پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں مفاہمت کے منصوبے کے لئے وسیع تر تحقیق اور مطالعہ کی ضرورت ہے۔