مہلک کورونا وائرس پھیلانے میں امریکہ اور اسرائیل کا کردار

  • ۴۲۴

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے مشرق وسطیٰ پر تحقیقات کرنے والے انسٹی ٹیوٹ MEMRI سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مختلف ذرائع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چین کی اقتصادی طاقت کو لگام پہنانے اور لوگوں کے اندر نفساتی جنگ پیدا کرنے کی غرض سے امریکہ اور اسرائیل نے کرونا وائرس بنا کر چین میں پھیلایا۔  
نیز سعودی اخبار الوطن نے دعویٰ کیا ہے کہ ایبولا ، زیکا ، سارس ، برڈ فلو ، سوائن فلو سے لے کر کرونا وائرس تک ، سب کے سب خطرناک وائرس امریکی لبارٹریوں میں بنائے اور مختلف ملکوں میں پھیلائے جاتے ہیں۔ جس کا اصلی مقصد لوگوں میں نفسیاتی جنگ کی صورت پیدا کرنا اور دواؤں کی بڑی بڑی کمپنیوں سے کمیشن حاصل کرنا ہوتا ہے۔  
اس اخبار نے مزید لکھا ہے کہ امریکہ نے ایک نئی قسم کی بیالوجیکل وار کا آغاز کر دیا ہے ، جس کے ذریعے وہ دنیا میں کھیل کے اصولوں کو اپنے فائدے میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، اس وباء کے لئے ایک منصوبہ بند اقتصادی پروپیگنڈا رچایا گیا ہے، کیوں کہ اس کے پیچھے جو ماسٹر مائنڈ ہے اس کا خیال ہے کہ چین کو ہنگامی علاج معالجہ، قرنطینہ اور دوا کی خریداری میں اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے اور آخر کار اس بیماری کی دوا ایک اسرائیلی کمپنی کے ذریعے انکشاف کی جائے گی۔
اس رپورٹ سے معلوم ہوتا کہ دوا بنانے والی اسرائیلی اور امریکی کمپنیوں نے یہ وائرس پھیلا کر اپنی دوائیں بیچنے کا راستہ ہموار کر لیا ہے۔

اسرائیل جمہوری یا اپارتھائیڈ ریاست؟

  • ۴۶۴

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: کتاب ’’اسرائیل جمہوری یا اپارتھائیڈ ریاست؟‘‘ (Israel: Democracy or Apartheid State?) امریکی تجزیہ کار، سیاسی کارکن اور محقق ’جوش روبنر‘ (Josh Ruebner) کی کاوش ہے۔ موصوف نے مشیگن یونیورسٹی (University of Michigan) سے علوم سیاسیات میں بے اے اور جانز ہوپکینز(Johns Hopkins University) سے بین الاقوامی روابط میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ روبنر اس وقت فلسطینی انسانی حقوق تنظیم کے سیاسی رہنما ہیں۔
مذکورہ کتاب کے مقدمے میں مصنف نے فلسطینی عوام کے ساتھ صہیونیوں کی جنگ، برطانوی حکومت کی طرف سے بالفور اعلانیہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے سرزمین فلسطین میں یہودیوں اور عربوں کے لیے دو الگ الگ ملکوں کی تشکیل کی پیشکش جیسے مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اگر چہ اقوام متحدہ کی پیشکش نے اسرائیلی ریاست کی تشکیل کو کسی حد تک تاخیر میں ڈال دیا لیکن آخرکار تقریبا ۵۰ سال کے بعد اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت سے فلسطین کے ایک عظیم حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
روبنر کوشش کرتے ہیں اس کتاب میں تاریخی دستاویزات اور حقوقی و سیاسی تجزیوں کے ذریعے اس سوال کا جواب دیں کہ کیا مقبوضہ فلسطین میں قائم صہیونی ریاست جمہوری ریاست ہے یا اپارتھائیڈ ریاست؟
یہ کاوش ۲۱ مختصر حصوں پر مشتمل ہے جو ۲۰۱۸ میں منظر عام پر آئی۔ مصنف نے اس کتاب  ’’اسرائیل؛ جمہوری یا اپارتھائیڈ ریاست؟‘‘ کا ایک ایسے فلسطینی گاؤں جو ۱۹۴۸ کی جنگ میں اجھڑ گیا تھا کے سفر سے آغاز کیا اور بعد والے حصوں میں اسرائیلی معیشت، اسرائیل کی تاریخ ۱۹ ویں صدی کے اواخر کے بعد، صہیونیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے لیے راہ ہائے حل، امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات، BDS تحریک کی نسبت صہیونی ریاست کا رد عمل اور تشدد و جارحیت کے ذریعے موجودہ صورتحال کے کنٹرول کے لیے اسرائیل کی توانائی جیسے موضوعات کو مورد گفتگو قرار دیا ہے۔ نیز مصنف نے کتاب کے ایک حصے کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے مختص کیا ہے۔
جوش روبنر ساری کتاب میں کوشش کرتے ہیں کہ صہیونی ریاست کو ایک اپارٹھائیڈ ریاست کے عنوان سے پہچنوائیں۔ وہ اپنے اس نظریے کی تائید میں کہتے ہیں: ’’اپارتھائیڈ کا مفہوم اپنی ذاتی خصوصیات اور ان معانی جو جنوبی افریقہ پر اطلاق ہوتے تھے سے الگ ہو گیا ہے اور اس وقت ایک خاص اور عالمی مفہوم اور تعریف میں تبدیل ہو چکا ہے۔  موجودہ دور میں اپارتھائید ایسے اقدامات کے مجموعے کو کہا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے ایک خاص نسل کو ملک کے سماجی، سیاسی، معیشتی اور ثقافتی امور میں حصہ لینے سے روک دیا جاتا ہے۔  بالکل واضح ہے کہ صہیونی ریاست کی تمام پالیسیاں منجملہ فلسطینیوں کے ساتھ فوجی سلوک، بین الاقوامی تعریف کے مطابق اپارتھائیڈ کی مصادیق ہیں۔

سیکولر معاشرے میں شادی کے مسئلے کو نظر انداز کرنے کے نتائج

  • ۴۴۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ادیان ابراہیمی کی مقدس کتابوں میں شادی کے مسئلے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہودیوں کی مقدس کتاب کی فصل پیدائش کی اٹھارہویں آیت میں یوں لکھا ہے: ’’خدا نے فرمایا ہے کہ اچھا نہیں کہ آدم اکیلا رہے لہذا اس کے لیے ایک شریک حیات بناؤں‘‘۔
پطرس فرجام نے کتاب ایضاح التعلیم المسیح میں لکھا ہے: ’’شادی کے ذریعے مرد اور عورت ایک ایسا مقدس اتحاد اور رشتہ قائم کر لیتے ہیں جو ناقابل جدائی ہوتا ہے۔ مرد پر لازمی ہو جاتا ہے کہ عورت کے حق میں محبت، احترام اور امانت داری کی رعایت کرے اور عورت بھی مد مقابل محبت، امانت اور اطاعت کی انجام دہی پر ملزم ہو جاتی ہے‘‘۔
دین اسلام میں بھی شادی کے مسئلے پر بے حد تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ (ص) نے بیان فرمایا: ’’ خدا کے نزدیک شادی سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے‘‘۔ لہذا دین اسلام کے بزرگ اس گھر کو بہترین گھر جانتے تھے جس میں شادی کی رسم انجام پائے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ادیان الہی کی طرف سے شادی اور ازدواج کے مسئلے پر اتنی تاکید ہونے کے باوجود آج ہم دیکھ رہے کہ نہ مشرق کا کوئی مکتب فکر اس بات کا پابند ہے اور نہ ادیان ابراہیمی کے ماننے والوں میں اس چیز کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ محرموں کے ساتھ زنا، ہم جنس پرستی، بغیر شادی کے ایک ہی چھت کے نیچے مرد اور عورت کا ایک ساتھ رہنا، اور اس طرح کے دیگر مسائل اس بات کا باعث بنے ہیں کہ شادی کے فوائد کا خاتمہ ہوجائے اور ان مشکلات کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف طرح کے قوانین بنائے جائیں، مثال کے طور پر برطانیہ کا روزنامہ ڈیلی میل مورخہ ۲۴ ستمبر ۲۰۱۴ کی اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: قانون کے مطابق، پرائمری اسکول اگر جنسی تعلیم کے دروس کو چھوڑ دیں تو انہیں جرمانہ کیا جائے گا۔ میڈل اسکولوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حاملگی (پریگننسی) روکنے والی دوائیں اور دیگر وسائل اسکولوں میں تقسیم کریں۔
شادی سے پہلے سیکس کی تعلیم اور پریگننسی روکنے والی دواؤں کا استعمال، مغربی معاشرے میں ناقابل کنٹرول مشکل ہے کہ جنہوں نے اس مشکل کو حل کرنے کے بجائے تعلیم اور دوا کی تقسیم کے ذریعے مشکل کو آسان بنا دیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے شادی کے مسئلے کو نظر انداز کر کے کبھی بھی کوئی معاشرہ ان مشکلات کا راہ حل تلاش نہیں کر سکتا؛ زنا زادہ اولاد کے ماں باپ کا پتہ نہ ہونا، حرام زادہ بچوں کے اسکولوں(kindergarten) کا کثرت، جنسی فساد کا پھیل جانا، آبادی کا تناسب کم ہونا اور نفسیاتی اور سماجی بیماریوں میں دن بدن اضافہ جیسے مسائل اس طرح کے سماج کے دامن گیر ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ادیان الہی میں شادی کو ایک مقدس اور خداپسند امر ہونے کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔

اسرائیل کے ہاتھوں تاریخی ثقافتی آثار کی نابودی

  • ۴۹۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ۱۹۶۷ کے بعد صہیونی ریاست کے ہاتھوں مقبوضہ فلسطین میں تمام ثقافتی آثار چاہے وہ مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہوں یا عیسائیوں سے، کی نابودی کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے رد عمل میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دنیا کے حریت پسندوں لوگوں حتی بعض یہودیوں نے بھی اسرائیل کے ان گھناونے اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اگر چہ بیت المقدس یا یورشلم انسانی ثقافت میں ایک خاص مقام کا حامل ہے اور اس کی معنوی اور تاریخی اہمیت کسی پر بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے اس ثقافتی شہر پر جارحیت، کسی کے لیے بھی قابل برداشت نہیں ہے۔
فلسطین اتھارٹی واچ نے ۹ ویں کانفرنس ۱۹۷۱ میں عرب سماج کو یہ تجویز پیش کی کہ بیت المقدس کے تاریخی آثار کے امور کے لیے ایک علمی کمیٹی تشکیل دی جائے جو علاقے میں اسرائیل کی بے راہ رویوں کا جائزہ بھی لے اور تاریخی آثار کے تحفظ کے سلسلے میں اسرائیلی عہدیداروں کے جھوٹے دعوؤں کو ثابت بھی کرے۔ عرب سماج نے چھپن(۵۶) اداری مٹینگوں کے بعد اس تجویز کو قبول کیا اور ایک کمیٹی تشکیل دی۔
اس کمیٹی کی منجملہ تحقیقات ’’کشاف البلدان الفلسطینیة‘‘ (فلسطینی شہروں کی رہنمائی) ۱۹۷۳ میں، ڈاکٹر اسحاق موسی حسینی کے ذریعے اور جامع بیت المقدس۱۹۷۹ میں منظر عام پر آئیں۔
یہاں پر در حقیقت یہ اہم سوال سامنے آتا ہے کہ کیوں سرزمین فلسطین کے تاریخی آثار کو صفحہ ہستی سے مٹایا جائے؟ اس کی دلیل کیا ہے؟
کیا لوگوں میں ایک ایسی آزاد فکر اور وسعت نظر رکھنے والی ثقافتی تحریک وجود میں نہیں آنا چاہیے جو ان آثار قدیمہ کو ہمیشہ زندہ اور محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہو؟

یہودی ریاست کا اقتصادی ڈھانچہ

  • ۴۴۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین پر اسرائیلیوں کے قبضے سے پہلے، اس کی معیشت کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا لیکن اعلانِ بالفور (1) اور دوسرے ممالک سے یہاں آنے والے یہودی مہاجروں کے سیلاب کے بعد، حالات رفتہ رفتہ بدل گئے۔ اور چونکہ مہاجر یہودی صاحب ثروت بھی تھے اور برطانیہ کی سرکاری اور عسکری قوت بھی ان کی پشت پر تھی، مسلم تاجر اور زمیندار منظر عام سے ہٹ گئے یا پھر مزارعوں اور کاشتکاروں میں بدل گئے۔ بالفاظ دیگر معاشی صورت حال مختصر سی مدت کے بعد نہایت تیزرفتاری سے اور بہت ہی ظالمانہ انداز میں یہودیوں کے مفاد میں تبدیل ہوگئی۔
لیکن اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ اس ریاست کو بھاری بھرکم بیرونی امداد ملتی رہتی ہے اور جرمنی ہر سال یہودی ریاست اور ہولوکاسٹ کے پس ماندگان کو تاوان ادا کرتا ہے اور باہر سے آنے والی یہ رقوم بھی اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر ہیں۔ بطور مثال امریکہ ہر سال تین ارب ڈالر اس ریاست کو بطور امداد ادا کرتا ہے؛ اور یہ امداد ان مالدار یہودیوں کے چندے کے علاوہ ہے جو ٹیکس سے بچنے کے لئے اسرائیل کی مدد کرنے والے خیراتی اداروں کو چندہ دیتے ہیں۔ یہودی ریاست نے بڑی مقدار میں بلامعاوضہ قرضے بھی امریکہ سے وصول کئے ہیں جو اس نے واپس نہیں کئے ہیں لیکن امریکی عوام کو ان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ چنانچہ اس ریاست نے ان کمیاب مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اقتصادی ڈھانچے کی بنیاد رکھی اور اسے مستحکم کیا اور نمایاں ترقی کی۔ (2)
یہودی ریاست کو وسائل کی قلت کی وجہ سے خام تیل، اناج، خام مال، فوجی سازوسامان اور درمیانی اشیاء (3) کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان اشیاء کی درآمد کے لئے ضروری زر مبادلہ کمانے کی خاطر اس کو اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ اس نے بھاری اور ہلکی صنعتوں کے ساتھ ساتھ فوجی صنعت اور معدنیات پر سرمایہ کاری کی ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ 1950ع‍ کی دہائی میں اس ریاست کی درآمد صرف 10 فیصد ہے لیکن اگلی دہائی میں اس کی درآمدات 25 فیصد تک اور 1980ع‍ کی دہائی میں 50 فیصد تک پہنچتی ہیں؛ اور یہ ریاست اپنی درآمدات میں مزید اضافہ کرنے کی مسلسل کوشش کررہی ہے۔ (4)
تاہم مخالف عرب ممالک کے بیچ اس کی زد پذیری کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان کی طرف کی سازشوں سے بچنے کے لئے اس ریاست نے سب سے پہلے زراعت اور اشیاء خورد و نوش کی تیاری میں خود کفالت کا فیصلہ کیا اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے اس نے فلسطینیوں کی زرخیز زمینیں غصب کرنے کے ساتھ ساتھ، ابتداء ہی سے لبنان،  شام اور اردن پر حملوں میں ان ممالک کے آبی ذخائر پر کنٹرول حاصل کرنے کا ہدف مد نظر رکھا تھا تا کہ اپنی آبی قلت کو دور کرسکے۔ اس ظالمانہ کوشش اور یہودیانہ دور اندیشی کے نتیجے میں وہ بہت مختصر عرصے میں ترشاوا پھلوں، (5) زیتون، انجیر، انگور، انار، بادام، کیلے، کھیرے اور ٹماٹر کی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل ہوئی بلکہ انہیں بیرون ملک برآمد کرنے کے قابل بھی ہوئی۔ یہاں تک کہ اس ریاست کی زرعی مصنوعات معیار کے لحاظ سے دنیا میں جانی پہچانی ہیں۔ (6)
یہودی ریاست نے اقتصادی لحاظ سے اتنی ترقی کرلی کہ اس کی مجموعی اندرونی آمدنی ہر پانچ سال بعد دو گنا ہوجاتی تھی۔ صورت حال اچھی تھی حتی کہ بیسویں صدی کی معاشی مندی (7) اور پڑوسیوں کے ساتھ متواتر جنگوں نے یہودی ریاست پر بھاری معاشی بوجھ ڈال دیا اور یہودی حکومت کو 12 ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ (8)
اسرائیلی ریاست نے اس بحران کے پیش نظر اپنا معاشی ڈھانچہ بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس ریاست کا ابتدائی معاشی ڈھانچے کو ـ جس کی بنیاد یہودی مہاجروں اور اسرائیل کے بانیوں کے زیر اثر اشتراکیت (9) کے طرز پر رکھی گئی تھی ـ معاشی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیا گیا؛ کیونکہ زیادہ تر صنعتی مراکز کی باگ ڈور ریاست اور ہیستادروت (10) کے ہاتھ میں تھا اور کچھ کمپنیاں ریاست اور بعض افراد کے درمیان مشترکہ تھیں۔
اسی رو سے 1970ع‍ کی دہائی کے بعد 100 بڑی صنعتی کمپنیوں میں سے 12 کمپنیاں نجی شعبے کو واگذار کی گئیں۔ مزدوروں کی کوآپریٹو یونین (11) سے وابستہ کمپنیاں ـ جو یہودی ریاست کی سو کمپینوں میں سے 35 کمپنیوں پر مشتمل تھی ـ کی بھی نجی شعبے کے حوالے کی گئی۔ تاہم نجکاری کے اس عمل میں کچھ بینکوں کی نجکاری ـ کچھ مشکلات کی بنا پر ـ کند رفتاری کا شکار ہوئی۔ (12)
با ایں ہمہ، اسرائیلی ریاست کی اقتصادی ترقی میں بیرونی امداد اور ظلم و جارحیت کے علاوہ کچھ دیگر عوامل کا بھی کردار تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کی معاشی ترقی چار عوامل کے جامہ عمل پہننے کے بعد ممکن ہوئی:
1۔ اس ریاست نے تمام امور نجی شعبے کو واگذار کرکے، اپنے اندر جامعاتی اور سائنسی مراکز کو مکمل آزادی اور ترقی کے مواقع اور کھلا معاشی ماحول فراہم کیا۔
2۔ ریاست نے اپنی بننے والی حکومت کو پابند کیا کہ افرادی ذرائع اور افرادی قوت کو صحت و حفظان صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ  (13) کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے کوشش کریں جس کا فطری نتیجہ بہتر اور زیادہ ماہر افرادی قوت کے معرض وجود میں آنے کی صورت میں ہی برآمد ہونا تھا۔
3۔ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلق خود بخود، بڑی مقدار میں سائنسی اور فنی وسائل اور اوزاروں کی اسرائیل منتقلی پر منتج ہوئی۔ (14)
4۔ مذکورہ مسائل کے علاوہ، یہودی ریاست کی طرف سے سائنس پر مبنی صنعتوں اور نجی و جامعاتی سائنسی مراکز کی پشت پناہی بھی اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر تھی۔ یہ پشت پناہی اس قدر وسیع تھی کہ ریاست کی اندرونی قومی آمدنی میں سائنسی تحقیقات کے اخراجات دنیا بھر میں سے سب سے زیادہ ہیں۔ (15)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:
1۔ Balfour Declaration
2۔ رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، احدی، محمد، چاپ اول: 1389، تہران، مرکز آموزش و پژوہشی شہید سپہبد صیاد شیرازی،ص69۔
3۔ Intermediate goods یا درمیانی اشیاء وہ اشیاء یا وہ مال ہے جنہیں دوسری اشیاء کی تیاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
4- رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، ص77۔
5۔ ترشاوا پھلوں میں مالٹا،سنگترہ،گریپ فروٹ،چکوترہ،لیموں،اور مٹھا وغیرہ شامل ہیں۔
6- رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، ص74۔
7۔ Economic downturn
8۔https://www.avapress.com/fa/article/5899
9۔ Socialism
10- لفظ ہیستادروت(Histadrut ההסתדרות) ایک عبرانی لفظ ہے جو مخفف ہے "ہیستادروت ہاکلالیت شِل ہاعوودیم بایرتص یسرائیل (ההסתדרות הכללית של עברית העובדים בארץ ישראל‬, HaHistadrut HaKlalit shel HaOvdim B'Eretz Yisrael) کا جس کے معنی انگریزی میں " General organization of Hebrew Workers in the land of Israel" (اور اردو میں "ارض اسرائیل میں عبرانی مزدوروں کی عام تنظیم") کے ہیں۔ سنہ 1969ع‍ میں لفظ "عبرانی" اس میں سے ہٹایا گیا۔ مزدوروں کی یہ تنظیم سنہ 1920ع‍ میں باضابطہ طور پر تشکیل پائی۔ جبکہ اس کا ابتدائی تعلق سنہ 1911ع‍ سے ہے؛ جب ارض فلسطین میں ابتدائی طور فن و حرفت سے تعلق رکھنے والی یہودی تنظیمیں تشکیل پائیں اور ہسیتادروت کی تشکیل کے وقت تک یہودی مزدور ان تنظیموں کی شکل میں منظم تھے۔
ہیستادروت کئی اداروں کا مجموعہ تھی اور خود ایک صدر کمپنی بنام "ہیفرات ہعوفدیم" (Hevrat HaOvdim = חברת העובדים یعنی مزدور کمپنی) کے تابع تھی۔ ہیستادروت کی ایک شاخ کی اہم ترین شاخ "کور" ہے جس میں 100 کارخانوں کے 23000 مزدور اراکین ہیں اور الیکٹرانک کے زیادہ تر کمپنیوں کی مالک ہے۔ لہذا ایک طویل المدت پروگرام میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ تمام تر وسائل اور سہولیات نجی شعبے کے سپرد کی جائیں اور ریاست نجی شعبے کی ہمہ جہت حمایت کرے۔
11۔ Workers' Co-operative Union
12- ساختار دولت صہیونیستی اسرائیل (یہودی ریاست کا ڈھانچہ)، ج2، موسسۃ الدراسسات الفلسطینیۃ، ترجمہ (فارسی) علی جنتی، چاپ اول: 1385، تہران، موسسہ مطالعات و تحقیقات یبن المللی ابرار معاصر ایران، ص129۔
13۔ Social Security
14- وہی ماخذ، ص 143۔
15- وہی ماخذ، ص145۔

 

ایران کیوں فلسطین کی حمایت کرتا ہے؟

  • ۴۳۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ بعثت انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ تاریخ کے عہدیدار حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محسن محمدی نے فلسطین کے دفاعی پہلو اور قرآن و تاریخ کے حوالے سے فلسطین کی حمایت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: فلسطین کی حمایت کے حوالے سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں قومی نظریہ، نسل پرستانہ نظریہ، دینی اور اسلامی نظریہ، غالب نظام کی بنیاد پر حمایت، تہذیب و تمدن کی بنیاد پر حمایت، اور ہمارا یہاں موضوع سخن بھی یہی تہذیب و تمدن کی بنیاد پر فلسطین کی حمایت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم قومی یا نسل پرستانہ نظریہ کی بنیاد پر فلسطین کی حمایت نہیں کر سکتے، لیکن دینی نظریہ کی بنیاد پر ہم فلسطین کے امور میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ اسی طرح غالب نظام کی بنیاد پر دنیا کے حریت پسند افراد مسئلہ فلسطین کی حمایت کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم یہاں پر یہ کہنا چاہیں گے کہ ایران کی جانب سے فلسطین کی حمایت، قرآن کریم کے اصولوں پر مبنی اسلامی تہذیب کی بنیادوں پر ہے۔
حجت الاسلام محمدی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ فلسطین صرف اپنی دینی میراث پر بھروسہ کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے مدمقابل کھڑا نہیں ہو سکتا کہا: یہ اس وجہ سے ہے کہ فلسطین کے اہل سنت کا اکثر دینی ورثہ دین یہود سے متاثر ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ تاریخ کے عہدیدار نے فلسطین کے حوالے سے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان بزرگوں کے نظریات اسلامی تہذیب پر مبنی ہیں اس لیے کہ ان کے بیانات پر غور و فکر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے صہیونی ریاست کے ساتھ کسی طرح کی گفتگو اور مذاکرات کا کوئی دروازہ کھلا نہیں چھوڑا ہے اور صریحاً کہا ہے کہ "اسرائیل کو نابود ہونا چاہیے"۔
انہوں نے زور دے کر کہا: رہبر انقلاب بین الاقوامی قوانین کے سخت پابند ہیں لیکن اس کے باوجود جب صہیونی ریاست کی بات آتی ہے تو واضح طور پر اپنے موقف کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس رژیم کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ اس کے مخالف دھڑوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمدی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ فلسطین کی حمایت دو صورتوں میں قابل تصور ہے ایک "فلسطین فی نفسہ" کی حمایت، اور دوسرے "فلسطین اسرائیل کے مقابلے میں" کی حمایت، کہا: فلسطین کی حمایت کے سلسلے میں سب سے پہلے گفتگو خود خداوند عالم نے کی ہے۔ اس لیے کہ جب خدا نے اس علاقے میں اپنے نبی کو بھیجنا چاہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ موجودہ فلسطین کے علاقے میں سکونت اختیار کریں اس طریقے سے اس علاقے میں انبیا کا سلسلہ شروع ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: مسجد الاقصیٰ کی بحث، پیغمبر اکرم کی معراج کا مسئلہ اور یہ کہ یہ سرزمین ایک وقت میں مسلمانوں کا قبلہ رہی ہے یہ سب چیزیں اس سرزمین کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اسلامی تہذیب اس بات کا باعث بنی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین کی حمایت کرے، کہا: فلسطین جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہ پر واقع ہے کہ ایشیا، یورپ اور افریقہ کو آپس میں جوڑ رہا ہے اور دوسری طرف سے ایک اقتصادی مرکز بھی پہچانا جاتا ہے اس اعتبار سے جو بھی اس علاقے پر اپنا کنٹرول حاصل کر لے گا بہت آسانی سے اطراف و اکناف پر تسلط قائم کر لے گا اور اپنے افکار و عقائد کو پھیلا سکے گا۔ بنابرایں، یہ علاقہ اسلامی تہذیب سازی میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔
حجت الاسلام محمدی نے اس سوال کے جواب میں کہ مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے بنی اسرائیل کیا وہی بنی اسرائیل ہیں جن کا قرآن میں تذکرہ ہے؟ کہا: مقبوضہ فلسطین کے یہودی وہی قوم ہے جسے قرآن کریم نے "پیغمبروں کی قاتل" کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ اور یہ وہی قوم ہے جس کے ساتھ پیغمبر اکرم نے آغاز اسلام میں سخت رویہ اپنایا اور یہ قوم بھی ہمیشہ کوشش کرتی رہی کہ پیغمبر اکرم قدس تک نہ پہنچ سکیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہودی اپنی آبادی کے لحاظ سے کبھی بھی مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لہذا وہ ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ حکمران طبقے کے اندر نفوذ پیدا کریں اور اس طریقے سے اپنی سیاستوں کو عملی جامہ پہنائیں۔
ڈاکٹر محمدی نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اگر اہل بیت اطہار(ع) کے قاتلین کی نسب شناسی کی جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ یا خود سلسلہ نسب کے اعتبار سے یہودی تھے یا یہودی سازشوں کا شکار تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی دلیل کہ پیغمبر اکرم کیوں یہودیوں کے سب سے زیادہ مخالف تھے یہ ہے کہ آپ جانتے تھے کہ یہودی اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے آخر میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ جو چیز آج بھی خدا کی آخری حجت اور منجی عالم بشریت کے ظہور کی راہ میں رکاوٹ ہے یہی صہیونیت ہے کہا: فلسطین کی حمایت مکمل طور پر قرآنی اصولوں پرمبنی ہے اس لیے کہ صہیونیت اور صہیونی ریاست مطلقاً باطل ہے اور باطل کے مقابلے میں حق کا دفاع کرنا اسلام کا مسلمہ قانون ہے۔

 

قاسم سلیمانی زندہ ہیں صرف مادی زنجیروں سے رہا ہوئے ہیں: آیت اللہ طائب

  • ۴۶۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دشمنوں نے الحاج قاسم سلیمانی کو شہید کر کے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ اگرچہ وہ اس شخص کی فراست اور ذہانت سے جان چھڑانا چاہتے تھے، لیکن ان کا یہ اقدام انتہائی غلط تھا۔ کیونکہ وہ شہادت کے مفہوم کو نہیں سمجھتے تھے، اور اگر وہ اس عظیم مفہوم کو سمجھتے تو اسلامی مجاہدین کو شہید نہیں کرتے۔
خداوند متعال کے حکم کے مطابق شہید "زندہ" ہے ۔ خدا فرماتا ہے: "«وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاء.»(۱) جو راہ خدا میں قتل ہو جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ البتہ ہم نے بھی لفظ ’’احیاء‘‘ کو اچھے سے درک نہیں کیا۔ لہذا ہمیشہ ’’بل احیاء‘‘ کے حوالے سے ایک مبہم تصویر ہمارے ذہنوں میں رہتی ہے۔ اگر یہ مفہوم قابل ادراک نہ ہوتا تو خداوند متعال اتنی واضح گفتگو نہ کرتا۔ حیات کا تصور تو ہمارے نزدیک معین ہے جو خداوند عالم فرماتا ہے کہ شہداء زندہ ہیں۔ اور «عِندَ رَبِّهِم یُرزَقونَ» (۲) اپنے پروردگار کے نزدیک رزق پاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے ہر کوئی خدا کی بارگاہ سے رزق حاصل نہیں کرتا؟ ہم سب بھی تو اپنے رب کا رزق کھاتے ہیں۔ «وَ مَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا» (۳) امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں ’’عالم خدا کے حضور میں ہے، خدا کے حضور میں گناہ نہ کرو‘‘۔ خدا کے حضور کا مطلب یہی ہے کہ ہم سب ’’عند اللہ‘‘ موجود ہیں۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاء کی تفسیر
خداوند عالم کا یہ فرمان کہ شہداء زندہ ہیں کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شہداء جسمانی اعتبار سے زندہ ہیں؟ یا ان کی روح زندہ ہے؟ اگر خداوند عالم کے اس کلام سے شہداء کا جسم مراد ہے تو یہ صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ بہت سارے شہداء کے جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ بدن کا کوئی حصہ باتی نہیں رہتا کہ زندگی کا تصور کیا جا سکے۔ مجھے یاد ہے جنگ کے دوران جب شہیدوں کے پاس گولے پڑتے تھے تو ان کا بدن اس قدر ٹکڑے ٹکڑے ہوتا تھا کہ جمع کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر مراد شہیدوں کی روح ہے، روح تو سب کی زندہ رہتی ہے، مگر جو شہید نہیں ہوتے ان کی روحیں مر جاتی ہیں؟ روح کو تو موت نہیں آتی۔ عالم برزخ ارواح کی زندگی کا عالم ہے روح کو موت نہیں آتی۔
پس شہداء کو کون سا امتیاز حاصل ہے جو خداوند عالم کے پیش نظر ہے؟ خداوند عالم یہ بھی فرما سکتا تھا کہ شہید کی روح ایک خاص طرح کی زندگی کی حامل ہے۔ زندہ اور مردہ شخص میں فرق یہ ہے کہ زندہ افراد تاثیر گزار ہوتے ہیں لیکن مردہ نہ موثر ہوتے ہیں نہ متاثر۔ تاثیر و تاثر در حقیقت روح سے متعلق ہے۔ لیکن اس دنیا میں اگر کوئی روح موثر واقع ہونا چاہے تو اسے جسم کی ضرورت ہے، جب تک جسم اس کے اختیار میں رہتا ہے کہ روح موثر و متاثر واقع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جہاد اس وقت ممکن ہے جب انسان کا بدن اس کے اختیار میں ہو۔
جب بدن انسان سے چھن جائے تو اس انسان کی کوئی تاثیر باقی نہیں رہتی۔ لہذا زندہ وہ ہے جو کوئی موثر اقدام انجام دے۔ اور مردہ وہ ہے جو کوئی اقدام نہ کر سکے کوئی تاثیر نہ دکھا سکے۔ عام لوگوں کا تصور یہ ہے کہ جو اپنی موت مرتا ہے اس میں اور جو راہ خدا میں شہید ہوتا ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس نظریہ کے مطابق، عام انسانوں جو فطری موت مرتے ہیں اور شہداء جیسے شہید بہشتی، شہید مطہری اور شہید قاسم سلیمانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
خداوند عالم اس فرق کو واضح کرنے کے لیے شہیدوں کو زندہ کہتا ہے۔ وہ شخص جس نے راہ خدا میں جہاد کیا اور اپنے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا وہ دوسروں کی طرح نہیں ہے، یعنی وہ شہادت کے بعد بھی اثرانداز ہوتا ہے اگر چہ شہید نے اپنا جسم راہ خدا میں دے دیا لیکن خدا اسے ایسا رزق دیتا ہے جس رزق کے واسطے وہ کائنات پر موثر واقع ہوتا ہے۔
ہم اسی وجہ سے قائل ہیں کہ دشمن نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ اس اقدام کے ذریعے امریکیوں نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔
حالیہ برسوں میں، دشمن نے ملت اسلام اور اسلامی نظام پر بہت کڑی ضربت لگانے کی کوشش کی ہے لیکن جو افراد اس دوران شہید ہوئے ہیں وہ حقیقت میں مرے نہیں ہیں۔
اگر چہ دشمن یہ تصور کر رہا ہے کہ شہید بہشتی، شہید رجائی کو امت اسلامیہ سے چھین لیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ دشمن نے اپنی ان حرکتوں سے اسلام کی خدمت کی ہے۔
دوسرے لفظوں میں شہید اپنی شہادتوں سے قبل، جو مجاہدت کرتے ہیں جو خدمات انجام دیتے ہیں وہ اپنے معمولی بدن اور مادی آلات کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ یعنی ضروری ہے کہ قاسم سلیمانی مادی آلات کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کریں چونکہ جسم محدود ہے۔
جب دشمن قاسم سلیمانی کے جسم کو مٹاتا ہے تو سوچتا ہے کہ اسے مٹا دیا گیا، لیکن قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق، قاسم سلیمانی زندہ ہیں اور اس رزق کے واسطے جو خداوند عالم کی طرف سے انہیں مل رہا ہے اس دنیا میں سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں بغیر اس کے کہ انہیں کسی بدن کی ضرورت پڑے۔
دشمن نے آپ کو شہید کر کے یہ سوچا کہ اس اقدام سے وہ اس عظیم مرد سے محفوظ ہو جائے گا، لیکن دشمن کے اس اقدام کا نتیجہ الٹا ہو گیا، اور بہت ساری کامیابیاں اسلام کو نصیب ہوئی ہیں۔ لہذا بغیر کسی شک و شبہہ کے قاسم سلیمانی کی شہادت انقلاب، اسلام اور مظلومین عالم کی کامیابی میں بے حد موثر واقع ہو گی۔

 

یہودیت اور صہیونیزم کی تاریخ پر مشتمل مصوری انسائکلوپیڈیا

  • ۹۲۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب ھذا یہودیت اور صہیونیزم کی ابتداء سے حال تک کی جامع تاریخ پر مشتمل ہے۔ اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں تمام مطالب مستند اور عمیق ہونے کے علاوہ نایاب تصویروں کے ساتھ تحریر کئے گئے ہیں جس سے قارئین کو اس کتاب کے مطالب کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے علاوہ اس کے مطالعہ سے دلچسبی بھی ملتی ہے۔ اس کتاب کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں موضوع پر مکمل اور جامع نگاہ کی گئی ہے یعنی مولفین نے یہودیت کی پیدائش سے لے کر عصر حاضر تک کے تمام واقعات و حالات کو تصویروں کے ساتھ اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس کتاب کے پہلے حصے کا نام ’’بنی اسرائیل سے اسرائیل تک‘‘ ہے اس دوران کے یہودیوں سے متعلق تمام باتیں جو آپ جاننا چاہیں کتاب کے اس حصے میں موجود ہیں۔ یہ حصہ حضرت ابراہیم کے دور سے شروع ہوتا ہے اور ۴۵ صفحوں میں یہودیت کی تاریخ کو بیان کرنے کے بعد تیس صفحوں میں یہودیوں کی مقدس کتابوں کے بارے میں بیان کرتا ہے۔
اس کتاب کی دوسری فصل ’’شریعت‘‘ یعنی دین یہود کے بعض احکام جیسے حرام کھانے، غسل، روزہ، صدقہ، نماز، کھانا پکانے کی ترکیبیں، یہودی اور ان کا خون، نجاست سے آلودہ افراد کو دور کرنا وغیرہ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد کی فصل میں آداب و رسوم کا تذکرہ ہے۔ عیدوں کی قسمیں، پہلے بیٹے کا معبد کو ہدیہ کرنا، شادی بیاہ کی رسومات، دعاؤوں کی قسمیں وغیرہ۔۔۔ یہودیوں کی یہ وہ رسومات ہیں جن کے بارے میں جاننا انسان کے لئے دلچسبی رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے کئی مرتبہ فلموں میں یہودیوں کو دیوار کی طرف مڑ کر دعا کرتے دیکھا ہے لیکن کیوں اور کیسے سے ہمیں خبر نہیں۔
اس کتاب کی اگلی فصل عرفان سے متعلق ہے عرفان کی قسموں مخصوصا ’’کابالا‘‘ کو مستند طریقے سے تصویروں کے ہمراہ مورد بحث قرار دیا گیا ہے۔ یہودی فرقوں، بین الاقوامی سطح پر یہودیوں کا سیاسی اور اقتصادی نفوذ بھی پہلے حصے کی آخری فصلوں میں شامل ہے۔


کتاب ھذا کا دوسرا حصہ صہیونی رژیم کی تاریخ اور بناوٹ کا عنوان رکھتا ہے۔ سیاسی نظام، اقتصادی نظام، تعلیمی نظام، عسکری اور سکیورٹی نظام اور یہودیوں کی اہم شخصیات اس حصے کی فصلوں میں شامل ہیں۔ ان فصلوں کے مطالعہ سے اسرائیل کے پوشیدہ پیچ و خم اور اس کی بناوٹ کے بارے میں عجیب و غریب معلومات انسان کو ملتی ہیں۔ خاص طور پر جب آپ تعلیمی نظام کا مطالعہ کرتے ہیں تو صہیونی رژیم کے اسکولوں میں بچوں کو کس چیز کی تعلیم دی جانا چاہئے اور انہیں کیسے تربیت کیا جانا چاہیے اس کے بارے میں جان کر آپ کو بہت حیرانگی ہو گی۔
اس کتاب کا آخری حصہ ’’ایران اور صہیونیزم‘‘ کے بارے میں ہے اور اس کی آخری فصل ہولوکاسٹ پر ختم ہوتی ہے۔

 

یہودی طرز کے بنکی نظام میں کھلم کھلا سود خواری

  • ۴۲۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج ہم ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں بےشمار مشکلات انسان کے دامن گیر ہیں ثقافتی، سماجی، سیاسی اور معیشتی مشکلات نے انسان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تعجب خیز ٹیکنالوجی ترقی کے دور میں انسان کی زندگی کمال اور سعاتمندی کی طرف گامزن ہوتی اور اس راہ میں پائی جانے والے مشکلات کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔
سائنسی ترقی نے جہاں انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں الجھاؤ پیدا کئے وہاں معیشتی امور میں بھی اسے بہت ساری مشکلات سے دوچار کیا۔ آج دنیا کا اقتصاد صرف سرمایہ داروں کے اختیار میں ہے اور دنیا پر حاکم ظالم اور ستمگر حکمران پوری دنیا کے انسانوں کی معیشت کی لگام اپنے ہاتھوں میں لے کر جس طرف چاہتے ہیں انسانی زندگی کی لگام موڑ دیتے ہیں۔
عصر حاضر کے قارون اور فرعون در حقیقت خدا سے مقابلہ کرنے کے لیے معیشی امور میں جس چیز سے کھلے عام فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ ہے ’’ربا اور سود‘‘۔ انہوں نے معیشتی امور میں جس نظام کو سماج میں رائج کیا ہے وہ ہے ’’بینکی نظام‘‘۔ بینکی نظام کا اہم ترین رکن سود اور پرافٹ ہوتا ہے اگر اس رکن کو اس نظام سے نکال دیا جائے تو ان کے بقول بینک بیٹھ جائیں گے اور دنیا کا نظام نہیں چل سکے گا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر بنکوں سے سود کا لین دین ہٹایا جائے اور اسے الہی اور اسلامی طرز کے مطابق تشکیل دیا جائے تو نہ سماج کی ترقی میں کوئی کمی آئے گی اور نہ کمال کی طرف ان کی زندگی کے سفر میں کوئی خلل واقع ہو گا لیکن جو عصر حاضر میں یہودیوں کے ذریعے جو بنکوں کا جو طریقہ کار بنایا ہوا ہے اس نے دنیا کے ہر انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انسانوں کی زندگیوں کی برکتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے بلکہ انہیں معیشتی امور میں خدا کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
آج پوری دنیا کے ماہرین اقتصاد کا یہ ماننا ہے کہ جس چیز نے انسانی سماج کو بے روزگاری ، مہنگائی اور بدبختی کے موڑ پر لا کر کھڑا کیا ہے وہ ہے عصر حاضر کا بینکنگ سسٹم۔
موسی پیکاک نامی ایک ماہر اقتصاد کا کہنا ہے کہ دنیا کے بین الاقوامی ماہرین اقتصاد معیشتی ترقی کے لیے جس چیز کی تجویز کرتے ہیں وہ ہے سود جبکہ تمام مشکلات کی بنیادی جڑ یہی سود ہے جس کی طرف انسانوں کو متوجہ نہیں کیا جاتا۔
اگر آپ بینکنگ سسٹم پر غور کریں کہ وہ کیسے وجود میں آیا؟ اور اس کے وجود میں لانے والے کون تھے؟ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نظام میں انسانوں کو کس طرح بیوقوف بنا کر انہیں اپنے چنگل میں پھنسایا جاتا ہے۔
بنکوں کے نظام کو وجود میں لانے والے یہودی ہیں۔ یہودیوں نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ۷ سو سال کا عرصہ صرف کر کے ایک مثلث وجود میں لائی جس کا ایک ستون بینک ہیں جو مکمل طور پر سود پر مبتنی ہیں دوسرا ستون اسٹاک مارکٹ ہے اور تیسرا قرضہ اور Loan ہے۔ یہودیوں نے ۷ سو سال لگا کر یورپ کے اندر اس نظام کو حاکم کیا اس کے بعد پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے اس بینکی نظام کے ذریعے سب سے پہلے ان کی معیشت کو اپنے اختیار میں لیا اور ان تین ستونوں کے ذریعے آج یہودی پوری دنیا کی معیشت کو اپنے اختیار میں لینے پر کامیاب ہو چکے ہیں۔
اس کے باوجود کہ قدیم توریت کی شریعت میں دوسرے ادیان و مذاہب کی طرح سود خواری حرام ہے اور سود کھانے والے افراد اخروی عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی سزا کے مستحق ہیں ان پر کفارہ واجب ہے اور انہیں کوڑے مارے جائیں گے لیکن یہودیوں نے جدید توریت میں تحریف کر کے سود خواری کو جائز قرار دے دیا’’ اپنے بھائی سے سود طلب نہ کرو نہ نقد پیسے پر نہ کھانے پر نہ کسی دوسری اس چیز ہر جو قرض دی جاتی ہے۔ صرف غیروں سے قرضے پر سود لے سکتے ہو‘‘ ( کتاب مقدس، عہد قدیم، سفر لاویان، باب ۲۵، آیت ۳۷،۳۸)
اہل سنت کے عالم دین رشید رضا نے اپنے استاد شیخ محمد عبدہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: توریت کی قدیمی نسخوں میں یہ عبارت موجود نہیں تھی کہ تم غیروں سے سود لے سکتے ہو لیکن موجودہ نسخوں میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہودی حتیٰ اپنے بھائیوں پر بھی رحم نہیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے سود لینے کے علاوہ انہیں اپنا غلام بنا کر حتیٰ دوسری قوموں کو بھی بیچ دیتے تھے۔

 

صہیونی ریاست اپنے زوال سے خوفزدہ

  • ۴۱۷

بہت ساری وجوہات ہیں جن کی بنا پر صہیونی ریاست اپنے زوال سے خوفزدہ ہے، ان وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ صہیونیوں نے شیطان کے دل میں بسیرا ڈالا ہے۔ یعنی اس غاصب اور طفل کش ریاست کی جڑیں شیطان کے وجود سے پھوٹتی ہیں اسی وجہ سے یہ شیطانی ریاست قائم و دائم نہیں رہ سکتی اور ہمیشہ ایک خدائی طاقت اس کے مقابلے میں موجود ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، نابودی کا خوف، ایک اہم چیلنج ہے جو ہمیشہ یہودی قوم اور صہیونی ریاست کو دھمکا رہا ہے۔ موجودہ دور میں سرزمین فلسطین کو غصب اور ستر سال سے زیادہ عرصے سے اس میں جرائم کا ارتکاب، نیز پوری دنیا کے میڈیا پر قبضہ کرنے کے باوجود اس ریاست پر اپنی نابودی کے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
اسی وجہ سے صہیونی ریاست کے حکام کے خصوصی جلسوں میں صرف اپنی بقا پر ہی غور و خوض کیا جاتا ہے۔ یہودی ایجنسی کے ڈائریکٹر بورڈ کے حالیہ جلسے جو ڈائریکٹر بورڈ کے سربراہ ’’ناٹن شارنسکی‘‘ کی موجودگی میں منعقد ہوا اور جلسہ میں انتخابات کے بعد ’’اسحاق ہرٹزوک‘‘ کو ناٹن شارنسکی کا نائب صدر مقرر کیا، میں انہوں نے یہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہمیں یہودیوں کو متحد کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس مقام تک پہنچنا ہے کہ ہمیں یقین ہو جائے کہ یہودی نابود نہیں ہوں گے۔ یہودی، یہودی ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ کیسا لباس پہنے اور کس پارٹی سے منسلک ہو، ہم سب ایک ہیں۔
اسی سلسلے سے صہیونی تنظیم نے ’’قدس میں کتاب مقدس کی اراضی‘‘ کے زیر عنوان ایک سروے کیا جس میں آدھے سے زیادہ صہیونیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی نسبت تشویش کا اظہار کیا۔
صہیونی آبادکاروں کے چینل نمبر ۷ کی رپورٹ کے مطابق، یہ سروے ۵۰۰ یہودیوں کے درمیان انجام دیا گیا جن کی عمر ۱۸ سال سے ۶۵ سال کے درمیان تھی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ۴۲ فیصد یہودیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی رائے دی جبکہ ۱۰ فیصد نے اسرائیل کی نسبت اظہار تشویش کیا۔ (۴) سروے کی رپورٹ کے مطابق، مذہبی یہودیوں کو زیادہ تر تشویش اس بات سے ہے کہ پوری دنیا صہیونی ریاست سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔
یہودی قوم ڈرپوک اور بزدل
زوال کے خوف کی ایک وجہ یہودیوں کا ڈرپوک اور بزدل ہونا ہے۔ ان کے اندر یہ صفت اس وجہ سے پائی جاتی ہے چونکہ وہ حد سے زیادہ دنیا سے وابستہ ہیں۔ قرآن کریم کے سورہ آل عمران کی آیت ۱۱۲ میں یہودیوں کی اس صفت کی مذمت کی گئی ہے۔ خداوند عالم اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے: «ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ أَیْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْکَنَةُ ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَیَقْتُلُونَ الْأَنْبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَ، ’’ان پر ذلت کے نشان لگا دئے گئے ہیں یہ جہاں بھی رہیں مگر یہ کہ خدائی عہد یا لوگوں کے معاہدے کی پناہ مل جائے، یہ غضب الہی میں رہیں گے اور ان پر مسکنت کی مار رہے گی۔ یہ اس لیے کہ یہ آیات الہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء کو قتل کرتے تھے۔ یہ اس لیے کہ یہ نافرمان تھے اور زیادتیاں کیا کرتے تھے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ یہودی ہمیشہ ذلیل و خوار تھے۔ اگر چہ بسا اوقات انہوں نے دنیا کی معیشت یا سیاست پر قبضہ جمایا۔ لیکن انسانی وقار، عزت و سربلندی اور امن و سکون کے اعتبار سے بدترین منزل پر رہے ہیں۔ ( جیسے چور اور ڈاکو جو اگر چہ چوری کر کے، ڈاکہ مار کے عظیم مال و ثروت کے مالک بن جاتے ہیں لیکن انسانی اقدار کے حوالے سے ان کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہوتا)۔ لہذا «ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ»
صہیونی ریاست کی جڑیں شیطانی افکار میں پیوست
یہودی ریاست کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی بنیادیں شیطانی افکار پر قائم ہیں۔ اس غاصب اور طفل کش ریاست کی جڑیں شیطان کے وجود سے پھوٹتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کبھی بھی قائم و دائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے مقابلے میں اسلامی حکومت ثابت قدم اور استوار ہے۔ اگر چہ دنیا ساری کے ذرائع ابلاغ مشرق سے لے کر مغرب تک اس نظام حکومت کے خلاف عمل پیرا ہیں۔
سینکڑوں مفکر اور ماسٹر مائنڈ روز و شب اس کام پر جٹے ہوئے ہیں کہ کوئی نہ کوئی سازش، کوئی منصوبہ کوئی پراپیگنڈہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جنم دیں اور اسے متزلزل کرنے کی کوشش کریں لیکن اسلامی نظام کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچا سکتے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ اس نظام حکومت کا قیام خدا پر ایمان اور توکل کی بنا پر ہے۔
صہیونی ریاست اور دنیا کے ظالمین کا زوال اس وجہ سے ہے کہ ان کی بنیاد ظلم، باطل اور شیطانی افکار پر قائم ہے خداأوند عالم نے خود ان کی نابودی کا وعدہ دیا ہے۔ قرآن کریم جب حق و باطل کے تقابل کی منظر کشی کرتا ہے تو یوں فرماتا ہے:
«اَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اَوْدِیَهٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَداً رَابِیاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَه اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَاءً وَاَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الاْرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الاْمْثَالَ»؛
’’اس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدر ظرف بہنے لگا اور سیلاب میں جوش کھا کر جھاگ پیدا ہو گیا جسے آگ پر زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لیے پگھلاتے ہیں۔ اسی طرح پروردگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے‘‘۔ (سورہ رعد، ۱۷)
دینی علماء کی مجاہدت صہیونی ریاست کی نابودی کا ذریعہ
صہیونیوں کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ مشرق وسطیٰ میں مخلص، متدین اور مجاہد علماء کا وجود ہے۔ وہ علماء جنہوں نے دین کی حقیقت کو پہچانا ہے اور دین کو صرف نماز و روزے میں محدود نہیں جانتے ہمیشہ سے باطل طاقتوں کے لئے چیلنج بنے رہے ہیں اور باطل طاقتیں ان کے چہروں میں اپنی نابودی کا نقشہ دیکھتی رہی ہیں۔
اس کی ایک مثال رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے یہ الفاظ ہیں  جو آپ نے ۸ ستمبر ۲۰۱۵ کو اپنی ایک تقریر کے دوران بیان فرمائے تھے: تم (صہیونیو) آئندہ ۲۵ سال کو نہیں دیکھ پاؤ گے۔ انشاء اللہ آئندہ ۲۵ سال تک اللہ کے فضل و کرم سے صہیونی ریاست نام کی کوئی چیز علاقے میں نہیں ہو گی‘‘۔ آپ کا یہ بیان عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسے پھیلا جیسے خشک جنگل میں آگ پھیلتی ہے۔ اس بیان نے صہیونی رژیم کے منحوس وجود پر لرزہ طاری کر دیا۔ اور اس کے بعد سے آج تک وہ صرف اپنی بقا کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ خدا کرے ان کی یہ جد و جہد خاک میں ملے اور طفل کش صہیونی رژیم ہمیشہ کے لیے صفحہ ھستی سے محو ہو جائے۔