-
Sunday, 23 February 2020، 06:00 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج ہم ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں بےشمار مشکلات انسان کے دامن گیر ہیں ثقافتی، سماجی، سیاسی اور معیشتی مشکلات نے انسان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تعجب خیز ٹیکنالوجی ترقی کے دور میں انسان کی زندگی کمال اور سعاتمندی کی طرف گامزن ہوتی اور اس راہ میں پائی جانے والے مشکلات کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔
سائنسی ترقی نے جہاں انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں الجھاؤ پیدا کئے وہاں معیشتی امور میں بھی اسے بہت ساری مشکلات سے دوچار کیا۔ آج دنیا کا اقتصاد صرف سرمایہ داروں کے اختیار میں ہے اور دنیا پر حاکم ظالم اور ستمگر حکمران پوری دنیا کے انسانوں کی معیشت کی لگام اپنے ہاتھوں میں لے کر جس طرف چاہتے ہیں انسانی زندگی کی لگام موڑ دیتے ہیں۔
عصر حاضر کے قارون اور فرعون در حقیقت خدا سے مقابلہ کرنے کے لیے معیشی امور میں جس چیز سے کھلے عام فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ ہے ’’ربا اور سود‘‘۔ انہوں نے معیشتی امور میں جس نظام کو سماج میں رائج کیا ہے وہ ہے ’’بینکی نظام‘‘۔ بینکی نظام کا اہم ترین رکن سود اور پرافٹ ہوتا ہے اگر اس رکن کو اس نظام سے نکال دیا جائے تو ان کے بقول بینک بیٹھ جائیں گے اور دنیا کا نظام نہیں چل سکے گا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر بنکوں سے سود کا لین دین ہٹایا جائے اور اسے الہی اور اسلامی طرز کے مطابق تشکیل دیا جائے تو نہ سماج کی ترقی میں کوئی کمی آئے گی اور نہ کمال کی طرف ان کی زندگی کے سفر میں کوئی خلل واقع ہو گا لیکن جو عصر حاضر میں یہودیوں کے ذریعے جو بنکوں کا جو طریقہ کار بنایا ہوا ہے اس نے دنیا کے ہر انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انسانوں کی زندگیوں کی برکتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے بلکہ انہیں معیشتی امور میں خدا کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
آج پوری دنیا کے ماہرین اقتصاد کا یہ ماننا ہے کہ جس چیز نے انسانی سماج کو بے روزگاری ، مہنگائی اور بدبختی کے موڑ پر لا کر کھڑا کیا ہے وہ ہے عصر حاضر کا بینکنگ سسٹم۔
موسی پیکاک نامی ایک ماہر اقتصاد کا کہنا ہے کہ دنیا کے بین الاقوامی ماہرین اقتصاد معیشتی ترقی کے لیے جس چیز کی تجویز کرتے ہیں وہ ہے سود جبکہ تمام مشکلات کی بنیادی جڑ یہی سود ہے جس کی طرف انسانوں کو متوجہ نہیں کیا جاتا۔
اگر آپ بینکنگ سسٹم پر غور کریں کہ وہ کیسے وجود میں آیا؟ اور اس کے وجود میں لانے والے کون تھے؟ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نظام میں انسانوں کو کس طرح بیوقوف بنا کر انہیں اپنے چنگل میں پھنسایا جاتا ہے۔
بنکوں کے نظام کو وجود میں لانے والے یہودی ہیں۔ یہودیوں نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ۷ سو سال کا عرصہ صرف کر کے ایک مثلث وجود میں لائی جس کا ایک ستون بینک ہیں جو مکمل طور پر سود پر مبتنی ہیں دوسرا ستون اسٹاک مارکٹ ہے اور تیسرا قرضہ اور Loan ہے۔ یہودیوں نے ۷ سو سال لگا کر یورپ کے اندر اس نظام کو حاکم کیا اس کے بعد پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے اس بینکی نظام کے ذریعے سب سے پہلے ان کی معیشت کو اپنے اختیار میں لیا اور ان تین ستونوں کے ذریعے آج یہودی پوری دنیا کی معیشت کو اپنے اختیار میں لینے پر کامیاب ہو چکے ہیں۔
اس کے باوجود کہ قدیم توریت کی شریعت میں دوسرے ادیان و مذاہب کی طرح سود خواری حرام ہے اور سود کھانے والے افراد اخروی عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی سزا کے مستحق ہیں ان پر کفارہ واجب ہے اور انہیں کوڑے مارے جائیں گے لیکن یہودیوں نے جدید توریت میں تحریف کر کے سود خواری کو جائز قرار دے دیا’’ اپنے بھائی سے سود طلب نہ کرو نہ نقد پیسے پر نہ کھانے پر نہ کسی دوسری اس چیز ہر جو قرض دی جاتی ہے۔ صرف غیروں سے قرضے پر سود لے سکتے ہو‘‘ ( کتاب مقدس، عہد قدیم، سفر لاویان، باب ۲۵، آیت ۳۷،۳۸)
اہل سنت کے عالم دین رشید رضا نے اپنے استاد شیخ محمد عبدہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: توریت کی قدیمی نسخوں میں یہ عبارت موجود نہیں تھی کہ تم غیروں سے سود لے سکتے ہو لیکن موجودہ نسخوں میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہودی حتیٰ اپنے بھائیوں پر بھی رحم نہیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے سود لینے کے علاوہ انہیں اپنا غلام بنا کر حتیٰ دوسری قوموں کو بھی بیچ دیتے تھے۔