-
Wednesday, 26 February 2020، 09:02 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ادیان ابراہیمی کی مقدس کتابوں میں شادی کے مسئلے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہودیوں کی مقدس کتاب کی فصل پیدائش کی اٹھارہویں آیت میں یوں لکھا ہے: ’’خدا نے فرمایا ہے کہ اچھا نہیں کہ آدم اکیلا رہے لہذا اس کے لیے ایک شریک حیات بناؤں‘‘۔
پطرس فرجام نے کتاب ایضاح التعلیم المسیح میں لکھا ہے: ’’شادی کے ذریعے مرد اور عورت ایک ایسا مقدس اتحاد اور رشتہ قائم کر لیتے ہیں جو ناقابل جدائی ہوتا ہے۔ مرد پر لازمی ہو جاتا ہے کہ عورت کے حق میں محبت، احترام اور امانت داری کی رعایت کرے اور عورت بھی مد مقابل محبت، امانت اور اطاعت کی انجام دہی پر ملزم ہو جاتی ہے‘‘۔
دین اسلام میں بھی شادی کے مسئلے پر بے حد تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ (ص) نے بیان فرمایا: ’’ خدا کے نزدیک شادی سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے‘‘۔ لہذا دین اسلام کے بزرگ اس گھر کو بہترین گھر جانتے تھے جس میں شادی کی رسم انجام پائے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ادیان الہی کی طرف سے شادی اور ازدواج کے مسئلے پر اتنی تاکید ہونے کے باوجود آج ہم دیکھ رہے کہ نہ مشرق کا کوئی مکتب فکر اس بات کا پابند ہے اور نہ ادیان ابراہیمی کے ماننے والوں میں اس چیز کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ محرموں کے ساتھ زنا، ہم جنس پرستی، بغیر شادی کے ایک ہی چھت کے نیچے مرد اور عورت کا ایک ساتھ رہنا، اور اس طرح کے دیگر مسائل اس بات کا باعث بنے ہیں کہ شادی کے فوائد کا خاتمہ ہوجائے اور ان مشکلات کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف طرح کے قوانین بنائے جائیں، مثال کے طور پر برطانیہ کا روزنامہ ڈیلی میل مورخہ ۲۴ ستمبر ۲۰۱۴ کی اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: قانون کے مطابق، پرائمری اسکول اگر جنسی تعلیم کے دروس کو چھوڑ دیں تو انہیں جرمانہ کیا جائے گا۔ میڈل اسکولوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حاملگی (پریگننسی) روکنے والی دوائیں اور دیگر وسائل اسکولوں میں تقسیم کریں۔
شادی سے پہلے سیکس کی تعلیم اور پریگننسی روکنے والی دواؤں کا استعمال، مغربی معاشرے میں ناقابل کنٹرول مشکل ہے کہ جنہوں نے اس مشکل کو حل کرنے کے بجائے تعلیم اور دوا کی تقسیم کے ذریعے مشکل کو آسان بنا دیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے شادی کے مسئلے کو نظر انداز کر کے کبھی بھی کوئی معاشرہ ان مشکلات کا راہ حل تلاش نہیں کر سکتا؛ زنا زادہ اولاد کے ماں باپ کا پتہ نہ ہونا، حرام زادہ بچوں کے اسکولوں(kindergarten) کا کثرت، جنسی فساد کا پھیل جانا، آبادی کا تناسب کم ہونا اور نفسیاتی اور سماجی بیماریوں میں دن بدن اضافہ جیسے مسائل اس طرح کے سماج کے دامن گیر ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ادیان الہی میں شادی کو ایک مقدس اور خداپسند امر ہونے کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔