کیا یہ امریکی سیاست میں خوش آئند تبدیلی ہے؟

  • ۴۹۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ۔ امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی پوری دنیا اور خاص طورپر مشرق وسطیٰ کے لئے خوش آئند مانی جارہی ہے ۔ڈونالڈ ٹرمپ کو شکست دیکر جو ئےبائیڈن امریکی صدارت کی کرسی حاصل کرچکے ہیں ۔جبکہ ٹرمپ نے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے ہیں اور انہوںنے انصاف کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایاہے مگر انہیں اس سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔جوئےبائیڈین کی کامیابی کے بعدامید کی جارہی ہے کہ ٹرمپ کے دوراقتدار میںعالمی سطح پر جو بدامنی،ناچاقی ،سیاسی و تجارتی تعلقات میں کشیدگی، اور اقتصادی و معاشی بدحالی پھیل گئی تھی ،جو بائیڈن اس صورتحال پر جلد از جلد قابو پانے کی کوشش کریں گے ۔امریکہ ٹرمپ کو ان کے غیر عاقلانہ فیصلوں ،احمقانہ حرکتوں اور عالمی سیاست سے عاری سیاستمدار کی حیثیت سے کبھی بھلانہیں پائے گا ۔انہوںنے امریکی عوام کو جو سنہرے خواب دکھائے تھے ،انکے پورے ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی اور عالمی سطح پر بھی انہوں نے امریکہ کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔یہ ایک ناقابل یقین حقیقت ہے کہ امریکی داداگیری اور اس کی طاقت کا دبدبہ ختم ہوچکاہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ بائیڈن امریکی طاقت کے دبدبے کی بحالی اور عالمی سیاست پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے کونسی نئی حکمت عملی اختیار کریں گے ۔
قابل ذکر یہ ہے کہ ہند نژاد امریکیوں نے بھی بائیڈن کی کھل کر حمایت کی ہے ۔انہوں نے ’ہائو ڈی مودی‘ اور ’نمستے ٹرمپ‘ جیسےسیاسی اور ذاتی مفاد پر مبنی پروگراموں کو زیادہ اہمیت نہیں دی ۔جس علاقے میں ’ہائو ڈی مودی ‘ پروگرام منعقد ہوا تھا ،وہاں بائیڈن کو اکثریت حاصل ہوئی ہے ۔امریکی ہندوستانی عوام نے یہ ثابت کردیاکہ وہ جھوٹ اور فریب کی سیاست کو اکھاڑ پھینکنے میں یقین رکھتے ہیں ۔جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس پروگرام میں کھل کر ٹرمپ کی حمایت میں تقریر کی تھی ۔انہوں نے نعرہ دیا تھا کہ ’اس بار پھر ٹرمپ سرکار‘،مگر ٹرمپ کے حق میں وزیر اعظم مودی کی انتخابی تشہیر پر ہندوستانی عوام نے دھیان نہیں دیا ۔انہوں نے وہی فیصلہ لیا جو ان کے حق میں بہتر تھا ۔کیونکہ ٹرمپ کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ دوستی سے ہندوستان کو کوئی خاص اور بڑا فائدہ حاصل نہیں ہوا۔دونوں کے تعلقات ذاتی نوعیت کے تھے جس کا ہندوستانی مفادات کی سیاست سے کوئی سروکار نہیں تھا ۔اس کے باوجود بھکتوں کی ٹولی ٹرمپ کی شکست سے آزردہ خاطر ہے ۔انہیں لگتاہے کہ بائیڈن ان کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوں گے ۔شاید انہیں علم نہیں ہے کہ ذاتی تعلقات اور دونوں ملکوں کی سالمیت پر مبنی سیاست دوالگ الگ چیزیں ہیں۔امریکہ نے ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ دوہرا رویہ اختیار کیاہے ۔بارہا ٹرمپ نے بھی اس دوہرے رویہ کا اظہار کیا مگر وزیر اعظم مودی اپنی ٹرمپ نوازی میں ان کے اس دوہرے رویے سے چشم پوشی کرتے رہے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی احمقانہ اور بصیرت سے عاری سیاست نے مشرق وسطیٰ کو بھی کم نقصان نہیں پہونچایا ہے ۔ایران اور چین کے ساتھ اس کے بگڑتے تعلقات پوری دنیا کے لئے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں ۔دیکھنا یہ ہے کہ بائیڈن ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پرکیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔ساتھ ہی چین جیسے اقتصادی سُپر پاور کے ساتھ امریکی تعلقات میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ یہ دو اہم باتیں ہیں جن پر دنیا کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں ۔ٹرمپ نے یک طرفہ کاروائی کرتے ہوئے جوہری معاہدہ سے فرار اختیار کیا تھا ،جبکہ عالمی سیاست کے پیش نظر یہ فیصلہ درست نہیں تھا ۔عالمی سطح پر ٹرمپ کے اس فیصلے کی بھر پور مخالفت کی گئی مگر انہوں نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی زحمت نہیں کی ۔ایران پر مسلسل معاشی پابندیوں کے اضافے نے ایرانی عوام کو امریکہ سےبددل کردیا ہے ۔ خاص طرپر عراق میں جنرل قاسم سلیمانی کے قافلے پر بزدلانہ اوردہشت گردانہ حملے نے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بڑھادی تھی۔جوابی کاروائی میں ایران نے عراق میں واقع امریکی’عن الاسد‘ ائیربیس پر میزائلوں سے حملہ کردیا تھا جس میں امریکی فوج کا بھاری نقصان ہوا تھا۔لہذا اب امریکہ ایران سے نرم گفتاری اور خارجہ سیاست میں تبدیلی کی امید نہیں کرسکتا جب تک اس کی طرف سے اس سلسلے میں پیش رفت نہیں ہوتی ہے۔ساتھ ہی روس کے بڑھتے ہوئے سیاسی و فوجی اثرات پر قابو پانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی صہیونت نوازی بھی کسی سے مخفی نہیں رہی ہے ۔وہ اپنے داماد جارڈ کشنز کی محبت میں صہیونی سیاست کا بری طرح شکار ہوئے ۔سب سے پہلے تو انہوں نے اسرائیل کو مستقل حیثیت دیکر عالم اسلام کے خلاف محاذ آرائی کی ۔یہ الگ بات ہے کہ اکثر مسلمان حکومتیں ان کی حمایت میں کھڑی ہوگئیں اور انہوں نے بھی اسرائیل کی مستقل حیثیت کو قبول کرنے میں تأمل سے کام نہیں لیا ۔مگر عالمی سطح پر مسلمان امریکی سیاست سے بدظن ہوگئے ہیں اور یہ پہلی بار ہواہے کہ دنیا کے تمام مسلمانوں نے مشترکہ طورپر امریکہ کی دوغلی پالیسیوں کے خلاف آواز احتجاج بلند کی ۔اس مخالفت کو مسلمان ممالک کی حمایت سے الگ ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔دوسری طرف یروشلم کو اسرائیلی پایۂ تخت تسلیم کرنے کی امریکی سیاست کا اثر بھی مشرق وسطیٰ پر مرتب ہواہے ۔فلسطینی مقاومتی تنظیمیں اور فلسطین کے حامی دیگر ممالک بھی اس غیر سیاسی اقدام کے خلاف متحد ہوئے ہیں ۔جارڈ کشنز جو استعماری ایجنٹ ہے اور استعمار کے اشارے پر ہی اس نے ’صدی معاہدہ ‘ کا پلان ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعہ جاری کرواکے امریکہ کی صہیونیت نوازی کو طشت از بام کردیا تھا ۔’صدی معاہدہ‘ کو مقاومتی محاذ نےسراسر فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکہ قراردیا تھا مگر اسرائیل امریکہ کے تعاون سے اس معاہدہ کے نفاذ کے لئے ہاتھ پیر ماررہاہے ۔بائیڈن اس معاہدہ کے دورس نتائج سے باخبر ہیں۔اس معاہدہ پر ان کا مؤقف عالمی سیاست پر اثر انداز ہوگا ،اس لئے ابھی یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ جوئےبائیڈن فلسطین اور اسرائیل کو لیکر کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
عالمی و علاقائی مسائل سے ہٹ کر امریکہ کے داخلی مسائل بھی کم نہیں ہیںجن کو حل کرنا نومنتخب امریکی صدر کے لئے بڑا چیلینج ہوگا ۔کوڈ-19 ابھی ختم نہیں ہواہے ۔اس وباسے امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہے اور اموات کی شرح بھی قابل تشویش ہے ۔ٹرمپ نے کوڈ -19پر کبھی سنجیدگی سے کام نہیں کیا ۔وہ ہمیشہ کی طرح لاپرواہ اور غیر ذمہ دار نظر آئے جس کا خمیازہ امریکی عوام کو بھگتنا پڑرہاہے۔ایمگریشن قانون میں اصلاحات کی ضرورت ہے جس پر بائیڈن نے انتخابی تشہیر کے دوران بھی کھل کر بات کی تھی ۔نسلی و صنعتی مساوات امریکہ کے لئے ایک اہم موضوع ہے ۔اسقاط حمل کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے جس پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا ۔اقتصادی و معاشی بدحالی جو کورونا کے وبائی عہد میں اپنے عروج پر ہے ،ناٹو ممالک سے تعلقات میں کشیدگی جس کی ساری ذمہ داری ٹرمپ کی غیر ذمہ دارانہ سیاست پر عائد ہوتی ہے ،روس کے ساتھ تعلقات کی اہمیت اور روس کے بڑھتے ہوئے اثرات کے مد نظر سیاسی حکمت عملی کی ترتیب نو،پرانے اور نئے تجارتی معاہدات پر غوروخوض،اور ایران و چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی ،ایسے مسائل ہیں جن پر جوئےبائیڈن کی خصوصی توجہ ہوگی ۔ظاہر ہے بائیڈن کے پاس الہٰ دین کا چراغ نہیں ہے کہ وہ ٹرمپ کی خراب کردہ صورتحال پر اچانک ایک آدھ دن میں قابوپالیں گے ،لیکن اگر بائیڈن ان مسائل پر ذمہ داری اور سنجیدگی کے ساتھ کام کریں گے تو امید ہے کہ بہت جلد مثبت نتائج ظہور پذیر ہوں گے ۔

بحری قزاقوں نے کس طرح جزیرہ انگلینڈ کو سلطنت برطانیہ میں تبدیل کیا؟

  • ۳۶۵

انگریزوں نے یہودی مربیوں کی مدد سے دنیا کے بہت سے ممالک پر قبضہ کرکے انہیں نوآبادیات میں تبدیل کیا اور عشروں نہیں بلکہ صدیوں تو ان کے وسائل کو لوٹا، یہ سب کو معلوم ہے مگر برطانوی حکومت ـ جو اب ایک ڈوبتے ہوئے جزیرے تک محدود ہوچکی ہے مگر دنیا بھر کی شرانگیزیوں میں بدستور کردار ادا کررہی ہے، دعوی کرتی ہے کہ اس کے اسلاف نے ان ممالک کو آباد کیا ہے اور ان پر قبضہ چھوٹی سی شیطانی حکومت کے لئے مفید نہیں بلکہ نقصان دہ رہا ہے!!! لیکن حال ہی میں ایک بھارتی نژاد امریکی پروفیسر نے اعداد و شمار کی مدد سے ثابت کیا کہ صرف برصغیر سے برطانیہ نے ۴۵ ٹریلین ڈالر کی دولت غارت کردی ہے اور یوں یہ رسوائے زمانہ سلطنت ـ جس کو بوڑھا استعمار یا بوڑھی لومڑی یا بوڑھا لگڑبگڑ بھی کہا جاتا ہے ـ مزید رسوا ہوگئی؛ لیکن کم ہی کسی کو معلوم ہے کہ یہ اس سلطنت کی بنیاد بحری قزاقوں کی مدد سے رکھی گئی ہے اور صنعتی انقلاب کے دور میں اس کی عظمت سمندری قزاقوں کی لوٹ مار اور ملکہ الیزبتھ کے ساتھ ان کے باہمی سازباز کی مرہون منت ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: “کیریبین سمندر کے قزاق” ([۱]) کی فلم سیریز ہالی ووڈ کا مقبول ترین فلمی سلسلہ اور دنیا بھر میں بحری سفر کی تاریخ کا ایک حصہ ہے جس میں تخیل کا ذائقہ بھی ملا دیا گیا ہے۔ نمی میں ڈوبے ہوئے جنوبی امریکی سواحل، ان قلعوں کے ساتھ جہاں سے سلطنت برطانیہ کے سپاہی ـ اور یقینی طور پر بحری قزاق ـ بحرالہند کے اہم ساحلی علاقوں پر فرمانروائی کرتے تھے اور عشرتکدوں میں جاکر لوٹے ہوئے مال سے حاصل آمدنی کو اڑا دیتے تھے۔
یہ ایک چمکتی دمکتی تصویر ہے جو کہ ظاہری پرفریبیوں کے برعکس تاریخی واقعات سے زمین و آسمان کے فاصلے جتنی مختلف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی سلطنت نہ صرف بحری قزاقوں کی دشمن نہیں ہے بلکہ اعلانیہ طور پر ـ اپنے دشمنوں کے خلاف لڑنے کے لئے ـ بحری قزاقوں کی حلیف بن جاتی ہے۔ اور ان حلیف قوتوں (یعنی سلطنت برطانیہ اور بحری قزاق) نے نہ صرف دنیا کے پانیوں پے برطانوی تسلط کو یقینی بنایا بلکہ اس اتحاد نے برطانیہ کے مہنگے شاہی دربار کے اخراجات برداشت کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
یورپیوں کے ہاتھ لاطینی امریکہ سے ایک ٹریلین ڈالر کی چوری
بحری قزاقوں کی عجیب داستان کا نقطہ آغاز گرینیڈا یا غرناطہ میں پایا جاسکتا ہے۔ جب کاسٹیلا ([۲]) کی ملکہ ایزابیلا دوم ([۳]) نے ۲ جنوری ۱۴۹۲ع‍ کو اپنے شوہر فرمانڈو ([۴]) کے ہمراہ جزیرہ نمائے ایبری ([۵]) میں ـ نو مہینوں سے جاری محاصرے کے بعد ـ مسلمانوں کی حکمرانی کی آخری نشانیوں کو بھی مٹا کر رکھ دیا۔ سات مہینے بعد اگست ۱۴۹۲ع‍ کو کریسٹوفر کولمبس ([۶]) نامی اطالوی مہم جو ایزاببلا اور فرمانڈو کی طرف سے سمندری مہم پر روانہ ہوا تا کہ افسانوی ہندوستان کو لوٹ کر برطانوی بادشاہوں کے خزانے کو مالامال کرسکے۔ ہندوستان اس سرزمین کا نام تھا جس کی تصویر صلیبی جنگوں کے زمانے سے یورپی شہسواروں کے ذہن میں ابھرتی رہی تھی۔
جزیرہ نمائے ایبری کے دوسرے گوشے میں پرتگال کے بادشاہ مانوئیل ([۷]) نے ـ جو ایزابیلا اور فرمانڈو کے نقشے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا ـ سنہ ۱۴۹۸ع‍ میں ـ کولمبس کی مہم کے پانچ سال بعد، واسکو ڈے گاما ([۸]) کی مدد سے ہندوستان کا راستہ تلاش کیا۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس تاریخ سے دنیا بھر میں بحری تسلط کی بنیاد پر یورپیوں کی لوٹ مار کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوا ہے۔
واسکو ڈے گاما براعظم افریقہ کا چکر کاٹ کر اس خشکی کے آخری نقطے کو نیک امیدوں کا راس ([۹]) کا نام دے کر مشرقی افریقہ کی پر رونق بندرگاہوں تک پہنچا۔ مشرقی افریقہ میں ممباسا ([۱۰]) اور مالنڈی ([۱۱]) تھے جہاں سے وہ ہندوستان کے مالابار ([۱۲]) کے علاقے کی کالی کوٹ ([۱۳]) بندرگاہ تک پہنچا اور آخرکار سنہ ۱۴۹۹ع‍ میں عظیم دولت لے کر لزبن ([۱۴]) واپس آیا۔ اس کے بعد پرتگالی بادشاہ نے تیرہ جہازوں پر مشتمل ایک بڑا بحری بیڑا “پیدرو کابرال” ([۱۵]) نامی مہم جو کی سرکردگی میں مشرق کی طرف روانہ کیا اور اس بار یہ بیڑا سنہ ۱۵۰۰ع‍ میں برازیل پہنچا اور کابرال نے اس سر زمین کو پرتگال کے بادشاہ کے نام سے متبرک کیا!!!
بحر ہند اور لاطینی امریکہ میں بحری سلطنت قائم کرنے کے سلسلے میں پرتگالیوں کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ہسپانویوں نے بھی بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ سنہ ۱۵۱۸ع‍ میں ہسپانوی مہم جو ہرنان کورٹیس ([۱۶]) نے اپنا سفر مغرب کی طرف کولمبس کے راستے پر شروع کیا۔ وہ ابتداء میں انٹیلیز اکبر ([۱۷]) تک پہنچا اور ۱۳ مارچ ۱۵۱۹ع‍ کو ۵۰۰ مسلح افراد کے ساتھ میکسیکو کے ساحل پر اترا۔ یہ حملہ لاطینی امریکہ میں آزتکوں ([۱۸]) کی صاحب ثروت سلطنت کے خلاف ایک طویل جنگ کا آغاز ثابت ہوا۔ آزتک سلطنت سائنسی اور اقتصادی حصولیابیوں کے لحاظ سے پورے یورپ سے بہت آگے تھی لیکن ان کے پاس بندوق نہ تھی اور یہ مسئلہ یورپیوں کے ہاتھوں آزتک سلطنت کے زوال اور مقامی باشندوں کے اجتماعی قتل پر منتج ہوا۔ اسی تسلسل میں ایک ہسپانوی فوجی فرانسسکو پیزارو ([۱۹]) نے پرو ([۲۰]) پر قبضہ جمایا۔ یوں پورا بر اعظم امریکہ دو یورپی سلطنتوں یعنی ہسپانیہ اور پرتگال کے زیر نگیں آیا اور اس علاقے میں قتل اور لوٹ مار کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔
ان ممالک سے لوٹی گئی دولت کے سلسلے میں واضح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہے لیکن بعض تاریخی تخمینوں کے مطابق لاطینی امریکہ سے چوری ہونے والے سونے اور جواہرات کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر سے تجاوز کرتی ہے۔
اس عظیم دولت پر ـ جو چھینی گئی یا لوٹی گئی یا چوری کی گئی ـ جدید یورپی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی  جس کو یورپی بڑے فخر سے نشاۃ ثانیہ ([۲۱]) کا نام دیتے ہیں! اور تشخص باختہ مشرقی اقوام بھی اس سے مرعوب ہوجاتی ہیں۔
ایک استعماری طاقت میں تبدیل ہونے کے لئے انگریزوں کا پہلا قدم
اسی زمانے میں ایک ملک اور بھی تھا جو لاطینی امریکہ اور ہندوستان کی عظیم دولت لوٹنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ برطانوی بادشاہ ہینری ہشتم ([۲۲]) نے ـ جو اپنے پرتگالی اور ہسپانوی ہم منصبوں کے حسد میں مبتلا ہوچکا تھا ـ وینس کے رہائشی اطالوی مہم جو جیووانی کابوتو ([۲۳]) کو یورپ کے دوسرے بندرگاہی شہر بریستول ([۲۴]) کے تاجروں کے ہمراہ بحر اوقیانوس ([۲۵]) روانہ کیا۔ یہ اطالوی مہم جسے انگریز اپنی تاریخ میں جیووانی کابوتو کا نام دیتے ہیں،  ہینری ہشتم کے حکم پر سمندروں میں اترا تا کہ ہر اس سرزمین پر قبضہ کرلے جو مشرکین [یعنی غیر عیسائیوں] کے قبضے میں تھی۔
کایوتو نے نوا اسکوشیا ([۲۶]) میں واقع کینیڈا کے جزیرے کیپ برتون کیپ بریٹن ([۲۷]) پہنچ کر اس کو ہینری ہشتم کے نام پر اپنی ملکیت میں لے لیا۔ اس کے باوجود پرتگال اور ہسپانیہ کے ساتھ رقابت و مسابقت کے سلسلے میں برطانیہ کی انتہائی سنجیدہ کوششوں کا دور الیزبتھ اول ([۲۸]) کے زمانے سے شروع ہوا ایک ایسی لڑکی جو انگلستان میں کیتھولک مذہب کے خاتمے کی ہینروی ہشتم کی کوششوں کا ثمرہ تھی اور اسی ہی کے زمانے میں امریکی ساحلی علاقوں میں برطانوی کالونیاں قائم کرنے کی سنجیدہ کوششیں شروع ہوئیں۔
حواشی
[۱]۔ Pirates of the Caribbean
[۲]۔ Castilla
[۳]۔ Isabella II of Spain
[۴]۔ Francisco de Asís María Fernando de Borbón
[۵]۔ Iberian Peninsula
[۶]۔ Christopher Columbus
[۷]۔ Manuel I, the Fortunate
[۸]۔ Vasco da Gama
[۹]۔ The Cape of Good Hope (“Cabo de Boa Esperanca”).
[۱۰]۔ Mombasa
[۱۱]۔ Malindi
[۱۲]۔ Malabar region
[۱۳]۔ Calicut
[۱۴]۔ Lisbon
[۱۵]۔ Pedro Álvares Cabral
[۱۶]۔ Hernán Cortés
[۱۷]۔ Greater Antilles
[۱۸]۔ Aztecs
[۱۹]۔ Francisco Pizarro
[۲۰]۔ Peru
[۲۱]۔ Renaissance
[۲۲]۔ Henry VIII of England
[۲۳]۔ Giovanni Caboto انگریزی میں: John Cabot
[۲۴]۔ Bristol
[۲۵]۔ Atlantic Ocean
[۲۶]۔ Nova Scotia
[۲۷]۔ Cape Breton Island
[۲۸]۔ Elizabeth I of England
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امریکی ریپبلکنز سفید فام اسرائیل کے شیدائی کیوں ہیں؟

  • ۳۵۹

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: اگر آپ نے ایلہان عمر، رشیدہ طلیب، الگزانڈریا اوسکاریو کورٹز اور ایانا پریسلی (Ilhan Omar, Rashida Talaib, Alexandria Ocasio-cortez and , Ayana Pressley) کے نام ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ الفاظ سنے ہوں کہ “جہاں سے آئی ہو وہیں چلی جاؤ” تو یقینا اس عجیب نکتے کو بھی سمجھ چکے ہونگے۔ ٹرمپ کے حامیوں کا اشارہ ہمیشہ اسرائیل کی طرف ہوتا ہے۔ جب لنڈسے گراہم (Lindsey Graham) سے ان افراد پر ٹرمپ کے حملہ آور ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ “یہ لوگ اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں!” اور اپنا رد عمل اس طریقے سے ریکارڈ کروایا۔ ریپبلکن سینیٹر لی زیلڈین (Lee Michael Zeldin) نے بھی ایلہان عمر اور طلیب کو “اسرائیل دشمن” قرار دیا۔ یہاں تک کہ ٹرمپ نے بھی اس تنازعے پر اپنا رد عمل دکھاتے ہوئے کہہ دیا کہ “ایلہان عمر اسرائیل سے نفرت کرتی ہیں”
عجیب مسئلہ ہے۔ یہ مطالبہ اتنا ہی قابل ادراک ہے جتنا کہ ایک امریکی سیاستدان سے کہا جائے کہ امریکی وطن پرستی کے ناکافی اظہار کی وجہ سے اسے امریکہ سے چلا جانا چاہئے۔ اگرچہ یہ مطالبہ کم از کم جانا پہچانا ہے۔
“امریکہ وہ جس سے یا تو محبت کرو یا پھر اسے ترک کرو” ۱۹۶۰ع‍ کی دہائی سے ایک قدامت پسندانہ نعرہ رہا ہے۔ عملی طور پر بےمثل مسئلہ یہ ہے کہ ایک امریکی سیاستدان سے مطالبہ کیا جائے کہ چونکہ اس نے ایک بیرونی ریاست کے تئیں کافی شافی عقیدت کا اظہار نہیں کیا ہے لہذا اسے امریکہ کو ترک کردینا چاہئے۔ کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ ٹرمپ کینیڈا، بھارت یا جاپان سے نفرت کی بنا پر ایلہان عمر اور ان کے ساتھیوں کے امریکہ سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کریں اور ریپبلکن سیاستدان ان کے اس مطالبے کی حمایت کریں؟
بےشک یہ تصور ممکن نہیں ہے؛ دلیل یہ ہے کہ ریپبلکن سیاستدان مزید اس انداز سے بات نہیں کرتے کہ اسرائیل یہ ایک بیرونی ریاست ہے۔ وہ اسرائیل کی محبت کو امریکہ کی محبت سے جوڑ دیتے ہیں کیونکہ کیونکہ وہ اسرائیل کو ایک ایسی مثالی امریکی ریاست کے لئے نمونہ سمجھتے ہیں وہ ریاست جس کی وہ آرزو کرتے ہیں: ایک نسل پرست سفید فام جمہوریت!
اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے۔ ٹرمپ اور ان کے بہت سے حلیف امریکہ کو ایک ای سفید فام یہودی-عیسائی ملک چاہتے ہیں۔ گوکہ اسرائیلی ریاست میں انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور وہاں پارلیمانی ادارے بھی ہیں لیکن یہ ریاست ڈھانچے کے حوالے سے صرف ایک مذہبی-نسلی گروپ کے لئے امتیاز کی قائل ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو بہت سے ریپلکنز امریکہ کے لئے بھی پسند کرتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں بعض تجزیہ نگار دائیں بازو کی طرف سے اسرائیل کی حمایت کی بنا پر امریکہ کو ـ صحیح طور پر ـ ایک نسلی جمہوریت سے تشبیہ دینے والے تجزیوں کو نظر انداز کرکے دوسرے تجزیوں کو ترجیح دیتے ہیں لیکن وہ دوسرے تجزیوں کو اگر خوش فہمی سے بھی دیکھا جائے تو کم از کم وہ ناقص ہیں۔ ایک رائج الوقت تجزیہ یہ ہے کہ “چونکہ ریپبلکنز جمہوریت اور انسانی حقوق کے حامی ہیں اسی بنا پر اسرائیل کے شیدائی ہیں!!!
یہاں بھی ایک تضاد پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ ٹرمپ کے زمانے میں جمہوریت اور انسانی حقوق ریپبلکنز کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ یہ صرف ٹرمپ ہی نہیں ہیں جو آمریت پسند راہنماؤں کے آگے کرنش کرتے ہیں بلکہ ریپبلکنز کی صفوں میں اس طرح کی کرنشیں بہ وفور پائی جاتی ہیں۔ ڈیموکریٹ جماعت کے مقابلے میں ریپلکنز روس اور سعودی عرب کو زیادہ مثبت نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گذشتہ سال دسمبر میں اکانومسٹ (Economist) اور یوگاو (YouGov) نے امریکیوں سے پوچھا کہ “کیا دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات میں انسانی حقوق کی پامالی ہماری “بنیادی تشویش” ہونا چاہئے یا نہیں؟” تو ہاں کہنے والوں میں ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپلکنز کی تعداد نصف تھی۔
نیز زیادہ تر ریپلکنز مغربی کنارے پر یہودی ریاست کی حکمرانی چاہتے ہیں جہاں فلسطینیوں کو فوجی قوانین کے تحت اور حق رائے دہی کے بغیر، رہنا پڑ رہا ہے۔ اگر آپ مغربی کنارے پر یہودی ریاست کے غیر جمہوری تسلط کی حمایت کریں تو امکانی طور پر اس ریاست کی حمایت کے لئے آپ کی دلیل “جمہوریت” نہیں ہیں۔
ریپلکنز کی اسرائیل دوستی کی ایک رائج ابلاغیاتی دلیل مذہبی مسائل سے تعلق رکھتی ہے۔ صحافی حضرات عام طور پر اشارہ کرتے ہیں کہ بہت سے انجیلی عیسائی ـ جن کی اکثریت ریپلکنز کو ووٹ دیتی ہے ـ مقدس سرزمین پر یہودی تسلط کو عیسی مسیح کے دوبارہ مبعوث ہونے کے لئے ایک ضرورت سمجھتے ہیں۔ لیکن مذہبی کرداروں میں مبالغہ آرائی بہت آسان ہے۔ ۲۰۱۹ع‍ گیلپ اسٹڈی (Gallup study) کے مطابق “حتی کہ لامذہب ترین ریپلکنز، راسخ العقیدہ ترین عیسائی ڈیموکریٹس کے مقابلے میں اسرائیل کے تئیں زیادہ مثبت رائے رکھتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اندھادھند اور بےجا طرف داری کی طاقت مذہبیت کی طاقت سے آگے چلی جاتی ہے۔
اس مسئلے کی اہم ترین دلیل درحقیقت “نسل” (Race) ہے۔ زیادہ تر مذہبی ڈیموکریٹس افریقی امریکی یا لاطینی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور افریقی امریکی عیسائی یا لاطینی نسل کے مذہبی عیسائی افراد ـ حتی کہ افریقی امریکی اور لاطینی نسل کے انجیلی عیسائی ـ اپنے سفید فام ہم وطنوں سے کہیں زیادہ اسرائیلی ریاست پر تنقید کرتے ہیں۔ پیو تحقیقاتی مرکز (Pew Research Center) کے اس سال بہار کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق تاریخی لحاظ سے سیاہ فام گرجاگھروں کے اراکین نے ۳۴ پوائنٹس کے فرق سے، اسرائیلی ریاست کو نا منظور کردیا ہے اور وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
بالفاظ دیگر، ریپبلکنز کی اسرائیل کی حمایت بحیثیت مجموعی امریکی عیسائیوں کی طرف سے نہیں ہے بلکہ یہ حمایت ان قدامت پسند سفید فام عیسائیوں کی طرف سے ہوتی ہے جن کا سیاسی تشخص مذہب اور نسل کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے قدامت پسند سفید فام عیسائی تیزی سے امریکہ کے مذہبی اور نسلی کردار کے تحفظ کے جنون میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اور اسرائیل کو ایسی ریاست کی نظر سے دیکھتے ہیں جو بالکل اسی روش پر کاربند ہیں۔
زیادہ تر اس امریکہ سے خوفزدہ ہیں جو کم مذہبی ہو اور سفید نسل پرستی پر کم یقین رکھتا ہو۔ کچھ عرصہ پہلے پیو نے امریکیوں سے دریافت کیا کہ “اگر امریکہ میں سفید فام باشندوں کی اکثریت اقلیت میں بدل جائے تو کیا اس صورت حال سے “امریکی اقدار اور روایات” کو تقویت ملے گی یا یہ اقدار کمزور اور روایات کمزور پڑ جائیں گی؟” تو ریپبلکنز نے ۴۶ پوائنس کے اختلاف سے “ہاں” میں جواب دیا اور کہا کہ امریکہ کمزور ہوجائے گا۔ اور اگر ریپبلکنز سفید نسل پرستی پر کم یقین رکھنے والے امریکہ سے خائف ہوں تو یقینا امرکہ کے “زیادہ مسلم ملک” بننے سے بھی خوفزدہ ہونگے۔ نیوامریکہ (New America) کے نومبر ۲۰۱۸ع‍ کے سروے کے مطابق، ۷۱ فیصد ریپلکنز کا خیال تھا “اسلام امریکی اقدار کے ساتھ سازگار نہیں ہے” اور حالیہ جون کے مہینے میں اکانومسٹ اور یوگاو کے ایک مطالعے کے مطابق ۷۴ فیصد ریپلکنز کی رائے ہے کہ “مسلمانوں کو وقتی طور پر امریکہ داخلے سے باز رکھا جائے”۔
یہ نسلی اور مذہبی خوف ریپبلکنز کی طرف سے ہجرت (Immigration) مخالف پالیسی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ کلیمسن یونیورسٹی (Clemson University) کے اسٹیون وی ملر (Steven V. Miller) نے واضح کیا ہے، جو امریکی کم ہجرت کے خواہاں ہیں، چھ گنا زیادہ ممکن ہے کہ ان کی یہ خواہش معاشی اضطراب کے بجائے نسلی نفرتوں پر استوار ہو۔
چنانچہ دائیں بازو کے دھاروں میں طاقت کی ایک کسوٹی نسلی نفرت ہے جس کی وجہ سے ریپبلکنز ہجرت اور ترک وطن کے مسئلے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ گذشتہ مہینے گذشتہ دسمبر میں جب کوینیپاک کالج (Quinnipiac College) کالج نے امریکیوں سے پوچھا کہ “کانگریس کو کونسی چیز کو اپنی اہم ترین ترجیح قرار دینا چاہئے؟” تو زیادہ تر ریپبلکنز نے دوسرے تمام موضوغات میں سے ہجرت کے موضوع کی طرف اشارہ کیا۔
جون ۲۰۱۹ع‍ میں جب رائٹرز (Reuters) نے ریپبلکنز سے پوچھا کہ “اپنی اہم ترین سیاسی فکرمندی بیان کریں”؛ ہجرت کا مسئلہ پھر بھی دوسرے سہ جوابی سوال میں دوسرے نمبر پر آیا۔
ریپبلکنز ـ جو امریکہ کی آبادیاتی کردار کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں ـ کے لئے یہودی ریاست ـ جو ہجرت کو یہودیوں کے لئے بہت آسان اور غیر یہودیوں کے لئے نہایت دشوار کر دیتی ہے ـ ایک ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انتہائی دائیں بازوں کی مفکرہ این کولٹر (Ann Hart Coulter) نے ۲۰۱۶ع‍ میں اپنی کتاب “آدیوس امریکہ” (Adios, America) شائع کی ہے اور یہ کتاب ٹرمپ کے ہجرت سے متعلق نعروں کو ترتیب دیا ہے۔ لکھتی ہیں: “اسرائیلی ریاست کا یہ موقف صد فیصد صحیح ہے کہ اسرائیلی قومیت کی تبدیلی اسرائیلی نظریئے کو بنیادی طور پر تبدیل کرسکتی ہے”۔
سنہ ۲۰۱۷ع‍ میں یورپی یونین کے افریقی تارکین فلسطین بدر کرنے کے منصوبے کے بارے میں ایک رپورٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کولٹر نے ٹویٹ کیا ، “صدارتی عہدے کے لئے نیتن یاہو!”
نیویاک ٹائمز نے ۲۰۱۸ع‍ میں غزہ پٹی سے ملحقہ علاقے میں خاردار تاروں کی طرف بڑھتے ہوئے فلسطینیوں پر اسرائیلی فائرنگ کے سلسلے میں رپورٹ شائع کردی تو کولٹر حسرت بھرا سوال اٹھایا: “کیا ہم بھی ایسا کرسکیں کے؟!”۔
البتہ کولٹر اپنے اس نظریئے اور عقیدے میں تنہا نہیں ہیں بلکہ ریپبلکن سیاستدان، ارکنساس کے سابق گورنر اور اصطباغی/بپتسماوی پادری مائیک ہکبی (Michael Dale Huckabee) نے مسلمانوں کی امریکہ ہجرت کی ممانعت کے منصوبے کی وکالت کرتے ہوئے لکھا: “ہر کوئی اس طرح سے رد عمل دکھا رہا ہے کہ “اوہ، یہ ٹرمپ نے کیا کہہ دیا! اس طرح کی بات اسرائیل میں حیرت انگیز نہیں ہے۔ وہاں کوئی سرحدوں کو مسلمانوں کے لئے نہیں کھولتا!”۔
ریپلکن اہلکار اور لکھاری رک سینٹورم (Rick Santorum) نے تو کچھ آگے جاکر یہودی ریاست سے کہا کہ “امریکہ آنے والے مسلمانوں کے ممکنہ جرائم کا جائزہ لے [تاکہ یہاں آنے والے مسلمانوں میں سے صرف وہ لوگ امریکہ میں آنے کی اجازت لے سکیں جو اس مجرم ریاست کے خیال میں مجرمانہ پس منظر نہیں رکھتے!]۔
گذشتہ دسمبر میں ٹکر کارلسن (Tucker Carlson) نے جنوبی سرحد پر ٹرمپ کی دیوار کی تعمیر کے سلسلے میں ایک منظر نامے کے ضمن میں اعلان کیا کہ “اسرائیلی خوب جانتے ہیں کہ دیواریں کس قدر مؤثر ہیں”۔
ٹیڈ کروز (Ted Cruz) نے بھی کہا: ایک بہت بڑا سبق ہے جو ہم سرحدی سلامتی کے سلسلے میں اسرائیل سے سیکھ سکتے ہیں؛ اور ٹرمپ نے خود دعوی کیا: اگر جاننا چاہتے ہو کہ دیواریں کس قدر مؤثر ہیں تو اسرائیل سے پوچھو!۔
یہ نظریہ ریپبلکنز کے سیاستدانوں اور ممتاز شخصیات تک بھی محدود نہیں ہے بلکہ رائے عامہ کے سروے رپورٹوں سے بھی ہجرت کی شدید مخالفت، مسلمانوں کے ساتھ دشمنی اور اسرائیل کی حمایت کے درمیان قوی تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔ گذشتہ موسم خزان میں میری لینڈ یونیورسٹی کے فلسطینی نژاد امریکی پروفیسر شبلی تلہامی (Shibley Telhami) نے سروے کی معلومات میرے سپرد کردیں تو مجھے معلوم ہوا کہ امریکی عوام ۶۰ پوائنٹس کے اختلاف سے اسرائیلی-فلسطینی تنازعے میں فلسطینیوں کی طرف جھکاؤ اور تارکین وطن کی امریکہ ہجرت کو آسان بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
جبکہ جن امریکیوں نے “کہا تھا کہ امریکہ کو اسرائیل کی طرف مائل ہونا چاہئے” انھوں نے ۲۰ پوائنٹس کے اختلاف سے امریکہ ہجرت کے عمل کو مشکل بنانے کی حمایت کی تھی۔
وہ امریکی جن کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اسرائیل کی طرف جھکاؤ رکھنا چاہئے، اس کے برعکس، انھوں نے ۲۰ پوائنٹس کے فرق سے ریاستہائے متحدہ میں ہجرت کو مشکل بنانے کی حمایت کی۔ اس طرح ، جواب دہندگان میں سے ۷۰ فیصد جو کہتے ہیں کہ امریکہ کو “اسرائیل کی طرف جھکاؤ” رکھنا چاہئے ان کا رجحان اسلام کے منافی تھا جبکہ اس کے مقابلے میں ۳۳ فیصد سے بھی کم جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ امریکہ کا “جھکاؤ فلسطینیوں کی طرف” ہونا چاہئے۔
لیکن دائیں بازو کی اسرائیلی سے عقیدت ہجرت کے مسئلے سے بہت آگے چلی جاتی ہے۔ اسرائیل نے غیر یہودیوں کو محض دور رکھ کر ہی اس ریاست پر یہودیوں کے تسلط کو قائم نہیں رکھا ہے بلکہ اس نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں رہنے والے غیر یہودیوں کی سیاسی شراکت داری کو بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے محدود کردیا ہے جس کی مثالیں ۲۰۱۵ع‍ کے انتخابات سمیت متعدد مواقع پر نظر آتی رہی ہیں۔
مختصر یہ کہ اسرائیل مخالف اور یہود مخالف افراد کے عنوان سے ایلہان عمر اور ان کے رفقاء کے خلاف ریپبلکنز کے حملے آخرکار اسرائیل اور یہودیوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ان کی کوشش ہے کہ ٹرمپ کے دور میں دائیں بازو کے بنیادی جماعتی مقاصد کے استحکام کے لئے اسرائیل اور یہودیوں سے فائدہ اٹھائیں؛ یعنی آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعے سفید فام عیسائی تسلط کا تحفظ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: پیٹر یینارٹ (Peter Beinart)؛ کالم نویس، اور نیویارک سٹی یونیورسٹی کے جرنلزم اور سیاسیات کے استاد۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگریزی مضمون کا لنک: yon.ir/BAqU7
فارسی ترجمے کا لنک: http://fna.ir/dbenv0

 

فرانسیسی نوجوانوں کے نام امام خامنہ ای کا مختصر پیغام آفاق عالم میں گونج اٹھا

  • ۳۴۷

گزشتہ سے پیوستہ

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ان دنوں صہیونی-یہودیت کے خلاف اٹھنے والے جذبات یورپی عوام کے درمیان شدت سے ابھر چکے ہیں، اور یورپی حکومتوں کی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے حساس مراکز میں صہیونی یہودیوں کی موجودگی کے خلاف احتجاج و اعتراض میں مسلسل تیزی آ رہی ہے۔ بطور مثال فرانس میں پیلی جیکٹوں والوں کی تحریک کا ایک اعلان شدہ بنیادی مقصد یہ ہے کہ اپنے ملک کے اقتصادی مراکز کو یہودی-صہیونیوں کے چنگل سے چھٹکارا دلائیں۔
ادھر جرمن وفاقی پارلیمان (German federal parliament OR Bundestag)، 598 عوامی نمائندوں سے تشکیل پائی ہے؛ تین کروڑ کی جرمن آبادی میں ایک لاکھ پچاس ہزار یہودیوں کا تناسب 0.5 فیصد ہے جبکہ 598 نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں یہودی اراکین کی تعداد 100 اور تناسب 17 فیصد کے قریب ہے جبکہ زیادہ تر یہودی جرمن نژاد بھی نہیں ہیں۔
یا آج سے دو ہی دن قبل برطانوی لیبر پارٹی - جو کہ برطانیہ کی ایک بڑی اور قومی سطح کی جماعت ہے - کے سینئر رکن اور سابق سربراہ جیریمی کوربین (Jeremy Corbyn) کو - جو برطانیہ میں وسیع مقبولیت کے حامل بھی ہیں - صہیونیت کے خلاف احتجاج کی پاداش میں پارٹی سے نکال باہر کیا گیا ہے اور اس وقت برطانیہ میں یہودی-صہیونیت اور یہودی ریاست کی بےجا مداخلتوں کے خلاف وسیع احتجاجی لہریں اٹھ چکی ہیں جو پورے برطانیہ میں پھیل سکتی ہیں۔
6۔ رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام ایک اور اہم نکتے کا بھی حامل ہے - جس کو لُبِ لباب، اصلِ مَطلَب، حاصِلِ مَطلَب اور عصارہ یا نچوڑ بھی کہا جاسکتا ہے - اور وہ یہ کہ جیسا کہ رہبر انقلاب کا پیغام بخوبی واضح کررہا ہے کہ "فرانسیسی صدر کا مسئلہ بیان اور اظہار کی آزادی کا تحفظ نہیں ہے"، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر فرانس میں نہ صرف ہالوکاسٹ کے بارے میں تحقیق و تفتیش کو جرم سمجھا جاتا ہے بلکہ یہودی مقتولین کی تعداد میں شک و تردد اور کمی بیشی کو بھی، قابل گرفت جرم کیوں سمجھا جاتا ہے؟
امام خامنہ ای نے اپنے مختصر سے پیغام میں اس کڑوی حقیقت کو طشت از بام کردیا ہے کہ جس چیز نے فرانسیسی صدر اور دوسری مغربی ممالک کو تشویش اور خوف و دہشت کی اتہاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے، خالص محمدی اسلام کا روزافزوں فروغ ہے، وہی جس نے گذشتہ 41 برسوں کے دوران استکباری ممالک اور خونخوار اور لٹیرے صہیونی-یہودیوں کو شدید گھٹن میں مبتلا رکھا ہؤا ہے اور مسلسل بلندیوں کی طرف بڑھ رہا ہے یہاں تک کہ فلک میں شگاف ڈال دے اور عالمی نظآم کے لئے ایک نیا منصوبہ جاری کرے۔
اور بالآخر، یہ پیغام ایک اور اہم نکتے کا بھی حامل ہے جس پر وقت آنے پر روشنی ڈالیں گے۔

 

مختصر پیغام آفاقی اثرات (۲)

  • ۳۸۰

گزشتہ سے پیوستہ

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج تک درجنوں نامور یورپی مؤرخین اور سینکڑوں مشہور اور ماہر پروفیسروں نے تاریخی دستاویزات کا جائزہ لیتے ہوئے ایسی دستاویزات فراہم کی ہیں جنہیں کوئی بھی تجزیہ نگار اور مؤرخ ان کی درستی اور صداقت میں شک نہیں کرسکتا۔ انھوں نے بالکل علمی روش سے ثابت کردیا ہے کہ ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتل ایک جھوٹا افسانہ ہے؛ انسان سوزی کی بھٹیوں کا وجود تک نہیں تھا؛ انسانوں کے جلانے کے لئے بنائے گئے گیس چیمبرز کا وجود ہی نہیں تھا اور یہ سب جھوٹے یہودی افسانوں کا حصہ اور صہیونیوں کی داستانیں ہیں، خالصتاً جھوٹی داستانیں، جعلی افسانے، جن کے مقصد [عالمی جنگ کے آٹھ کروڑ مقتولین کے قتل پر پردہ ڈالنے] سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے؛ یہ افسانے عالمی جنگ کی بھینٹ چڑھنے والے بےگناہ انسانوں کی حق تلفی اور نہایت مجرمانہ فعل ہے۔ ان عظیم محققین میں سے پروفیسر راجر گارودی، (اور بعد از قبول اسلام رجا گارودی  Roger Garaudy یا Ragaa Garaudy)، پروفیسر ڈآکٹر رابرٹ فاریسن (Robert Faurisson)، پروفیسر اور کتاب " آؤشوِٹس کا جھوٹ (The  Auschwitz Lie) کے مصنف پروفیسر تھائیز کرسٹوفرسین (Thies Christophersen) شامل ہیں۔ البتہ راجر گارودی اور رابرٹ فوریسن دونوں فرانسیسی ہیں، دونوں جدیدترین ہیں اور دونوں سب سے زیادہ عبرت آموز ہیں۔
4۔ پروفیسر رابرٹ فوریسون فرانس کی مشہور لیون یونیورسٹی (University of León) کے استاد اور عالمی تاریخی دستاویزات کے ماہرترین تجزیہ نگار کے طور پر عالمی شہرت کے حامل شخصیت ہیں۔ انھوں نے اپنی علمی اور مستند تحقیقات کو اپنی کتاب "گیس چیمبرز کا مسئلہ" (The Problem of the Gas Chambers) میں مرتب کیا ہے۔  
انھوں نے ہزاروں دستاویزات کا جائزہ لیا ہے، اور تحقیق کے ان برسوں کے دوران تمام صہیونیوں کے افسانوں میں مذکورہ تمام مقامات - بشمول گیس چیمبرز، انسان سوزی کی جعلی بھٹیوں کا میوزیم، میونخ کے جعلی ڈاخاؤ حراستی کیمپ (Dachau concentration camp) وغیرہ - کا معائنہ کیا ہے اور سینکڑوں عینی شاہدین کے ساتھ بیٹھ کر نہایت باریک بینانہ روشوں سے، بات چیت کی ہے اور آخر کار بغیر کسی ذاتی رائے یا تجزیئے کے بغیر، اور صرف اور صرف دستاویزات کے زبانی، واضح کردیا ہے کہ نازی جرمنی میں یہودیوں کا قتل عام ایک عظیم تاریخی جھوٹ اور رائے عامہ کو دیا جانے والا شرمناک فریب ہے؛ اور اس طرح کا جھوٹ اور فریب وحشی صہیونیوں اور مکار یہودیوں سے بالکل بعید نہیں ہے اور وہ ان روشوں کو پوری تاریخ میں دہراتے رہے ہیں۔
بطور مثال فوریسن گیس چیمبرز کی جعلی تصویروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس دعوے کے مسترد کرتے ہوئے ناقابل انکار دستاویزات سے استناد کرکے، حیرت کے ساتھ پوچھتے ہیں: اگر یہ تصویریں حقیقت پر مبنی ہیں تو جرمن سپاہی مبینہ مہلک گیسوں سے بھرے ہوئے ہالوں میں ماسک اور کسی بھی قسم کی حفاظتی تدابیر اور منہ، ناک اور آنکھوں کے بچاؤ کے لئے کوئی اقدام کیئے بغیر، کھڑے نظر آرہے ہیں اور جن کیسوں سے وہ یہودیوں کو ہلاک کررہے ہیں وہ گیسیں ان کو ہلاک نہیں کررہی ہیں اور وہ بڑی تسلی کے ساتھ یہودیوں کی جان کنی کے مناظر کا نظارہ کررہے ہیں؟؟؟ انھوں نے کچھ صہیونی-یہودیوں کے دعوے کے موافق کچھ یہودیوں کا محاصرہ کرنے والے ٹینکوں کی حامل تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے ناقابل انکار دستاویزات کے سہارے کہتے ہیں کہ یہ ٹینک جرمن نہیں بلکہ برطانوی ہیں!!!
5۔ امام خامنہ ای مذکورہ سوال اٹھا کر ایک طرف سے فرانس اور دوسری یورپی حکومتوں کے ہاں کے آزادی بیان کے دعوے کو مضحک قرار دیتے ہوئے یورپی رائے عامہ - اور بطور خاص یورپی نوجوانوں کو - ہالوکاسٹ کے افسانے کا جائزہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں؛ کہ یقینا اس قسم کی تحقیقات کا فیصلہ کن نتیجہ یہ ہوگا کہ اس افسانے کی حقیقت فاش ہوجائے گی اور اس کا جعلی پن طشت از بام ہوجائے گا۔ البتہ امام خامنہ ای کا سوال ہالوکاسٹ کے جعلی پن پر ہی نہیں رکتا بلکہ آپ فرانسیسی حکومت سمیت یورپی حکومتوں کی سیاسی خودمختاری پر بھی سوال اٹھاتے ہیں، جہاں حتی کہ ہالوکاسٹ کے بارے میں شک و تردد بھی ایک جرم ہے۔

 

مختصر پیغام آفاقی اثرات (۱)

  • ۵۹۱

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے حال ہی میں فرانسیسی نوجوانوں کے نام اپنے ٹویٹ پیغام میں فرانس کی حساس ترین دکھتی رگ پر انگلی رکھی ہے اور جمہوریت اور اس ملک سمیت مغربی دنیا کی طرف کے جمہوریت اور آزادی بیان کے بےبنیاد دعوے کو چیلنج کردیا ہے۔ آپ فرانسیسی نوجوانوں سے فرماتے ہیں کہ "اپنے صدر جمہوریہ سے پوچھ لیجئے کہ ہالوکاسٹ میں شک و شبہہ کرنا جرم ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی شان میں گستاخی مُجاز ہے؟"
یہ ایک دو طرفہ سوال ہے جو نہایت زیرکی اور کیاست سے جنم  لے چکا ہے اور اس کے دونوں رخ فرانس کے شاتم سربراہ کے لئے شرمناک اور بدنام کنندہ ہیں۔ اس سلسلے میں کہنا چاہئے:
1۔ امام خامنہ ای بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کا پیغام جاری ہونے کے فورا بعد پوری دنیا کی وسعتوں میں پھیل جائے گا۔ یعنی یہ کہ اس پیغام کا خطاب صرف فرانسیسی نوجوانوں سے نہیں ہوگا لیکن رہبر انقلاب کے پیغام کا رخ فرانسیسی نوجوانوں کی طرف ہے۔ یہ پیغام صدر فرانس کو نہایت اعلانیہ طور پر تذلیل کرتا ہے اور اس حقیقت کا بھی اظہار ہے کہ "صدر فرانس اپنے اقدام کی خباثت سے بخوبی آگاہ تھا چنانچہ وہ اس قابل نہ تھا کہ امام خامنہ ای جیسی ہستی کے پیغام میں اس کو مورد خطاب قرار دیا جائے"۔
2۔ ہالوکاسٹ ایک عظیم تاریخی جھوٹ ہے اور بےشمار دستاویزات اور شواہد دستیاب ہیں جو اس صہیونی-یہودی افسانے کے جعلی پن کو ثابت کرتے ہیں۔ مغرب ہالوکاسٹ کے حوالے سے بہت فکرمند اور بےچین ہے اور اس کی بےچینی خوف و وحشت کے ساتھ گھل مل چکی ہے؛ اور اگر ایسا نہ ہوتا اور تحقیقات اور تجزیوں سے ہالوکاسٹ کے وقوع کی گواہی ملنے کا امکان ہوتا تو یقینی امر ہے کہ مغرب اور یہود کے سرکردگان نہ صرف اس بارے میں کسی تحقیق سے خوفزدہ نہ ہوتے، بلکہ دوسروں کو بھی اس قسم کی تحقیق کی دعوت دیتے اور انہیں اس کام کی ترغیب بھی دلاتے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے اس مختصر سے پیغام میں اس عظیم جھوٹ کے کیس کو دنیا والوں کے سامنے کھول دیا ہے۔ ایسا سیاہ اور شرمناک کیس، جس کے کھل جانے سے یہودی بھی اور ان کے حامی مغربی حکمران بھی، خوفزدہ ہیں۔
3۔ ہم نے قبل ازیں اخبار "کیہان" میں ہالوکاسٹ کے جعلی پن کے اثبات کے لئے بےشمار دستاویزات پیش کی ہوئی ہیں اور اس مضمون میں ہم ان دستاویزات کی طرف مختصر سا اشارہ کرتے ہیں۔
پیئر ایمانوئل ودال - نیکیٹے، (Pierre Emmanuel Vidal-Naquet)، اور سرج ویلز (Serge Weils) اور فرانسوا براریدا (François Braryda) نے فرانس کے یہودی ربی رینے - سیموئل سپراٹ (Rene-Samuel Sprat) کی سربراہی میں، دوسری جنگ عظیم میں "ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل عام کے جھوٹے افسانے" کو دستاویز بنا کر ایک قانون کا مسودہ تیار کرکے منظور کروایا اور [اس جھوٹ کو چھپانے کی غرض سے] اس قانون کے تحت "ہالوکاسٹ میں کسی بھی قسم کا شک کرنا، یا دوسری عالمی جنگ میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل کی تعداد میں کمی بیشی کرنا، نیز یہودیوں کے جلانے کے لئے گیس چیمبرز کی موجودگی میں شک کرنا، جرم سمجھا جائے گا اور جو بھی فرانس میں اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا اور مذکورہ تین موضوعات میں شک و تذبذب کا اظہار کرے گا، اس کو ایک مہینے سے ایک سال تک قید اور 2000 سے 3000 فرانک تک کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا"۔ بعدازاں امریکہ اور بین الاقوامی یہودی ایجنسی کے دباؤ کے تحت یہ قانون دوسرے یورپی ممالک میں منظور کروایا گیا، اور آج صورت حال یہ ہے کہ آج مبینہ ہالوکاسٹ اور اس کے پہلؤوں اور اجزاء میں کسی قسم کا شک و تردد یورپ کی حدود میں قابل گرفت جرم سمجھا جاتا ہے۔

 

موشے دایان سینٹر Moshe Dayan Center کا تعارف

  • ۵۴۵

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: موشے دایان سینٹر(Moshe Dayan Center (MDC) کی بنیاد سنہ ۱۹۵۹ میں رکھی گئی اور ۱۹۸۳ میں اسے تل ابیب یونیورسٹی میں شامل کر لیا گیا۔ بعد از آں، پنسیلونیا یونیورسٹی (Pennsylvania ) نے ۲۰۱۴ میں اس سینٹر کو مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے ۳۳ ویں اہم تحقیقی سنٹروں میں قرار دے دیا۔ (۱)
مغربی ایشیا کے حالات پر تسلط رکھنے والے محققین جو فارسی، عربی، عبرانی، ترکی اور کردی زبانوں سے آشنا ہوں اس سینٹر میں مصروف تحقیق ہوتے ہیں۔ ۱۸۷۷ سے لے کر آج تک کے تمام عربی اخباروں کے آرکائیوز اس سینٹر میں موجود ہیں جو محققین کے اختیار میں دئے جاتے ہیں۔ ۲۰۱۴ میں اس سینٹر نے امریکہ کی یونیورسٹی ویسکونسین (Wisconsin) کے ساتھ یہودیت سے متعلق موضوعات پر تحقیقات کرنے کے لیے پانچ سالہ تعاون کا معاہدہ کیا۔
موشہ دایان سینٹر کی سرکاری ویب سائٹ؛  https://dayan.org
ہر سال دنیا کی مختلف زبانوں میں کتابیں اس سینٹر سے چھپتی ہیں۔ ایران کے سلسلے میں چھپنے والی کتابوں میں سے دو کتابیں یہ ہیں:
الف ۔ ایران اور اسرائیل کے تعلقات ۱۹۴۸ سے لیکر ۱۹۶۳ تک
تالیف؛ ڈورن اٹزہاکو، سن طباعت ۲۰۱۹
 
ب؛ اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان طاقت کا توازن
تالیف؛ ٹیمر یگنیس، سن طباعت ۲۰۰۸
 
ہر مہینے ۸ تجزیاتی رسالے اس سینٹر سے شائع ہوتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
۔ Tel Aviv Notes – Contemporary Middle East Analysis)
 
۔ Bayan – The Arabs in Israel
 
۔ Bustan
 
۔ Middle East Newsbrief
 
تاریخچہ
اس سینٹر کی تاسیس کا سب سے پہلے آئیڈیا موساد کے سب سے پہلے سربراہ ’’رووین شیلاوہ‘‘ نے دیا تھا۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں اس کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کی موت کے تیس دن بعد ان کی یاد میں منائی گئی تقریب میں اسرائیلی وزیر اعظم کے آفیس کے سربراہ ’’ٹیڈی کولیک‘‘ نے موساد کے سابق سربراہ کے نام اس سینٹر کی بنیاد رکھنے کا اعلان کر دیا۔
کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اسرائیل کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور اسرائیل اورینٹل سوسائٹی (Israel Oriental Society) کے باہمی تعاون سے یہ سینٹر معرض وجود میں آگیا۔ موساد کے سکیورٹی افیسر ’’اسحاق اورن‘‘ کو اس تحقیقی سینٹر کا پہلا سربراہ مقرر کیا گیا۔(۶) ہاآرتض اخبار کے مطابق ۱۹۶۰ کی دہائی تک جو محققین اس سینٹر میں کام کرتے تھے اپنی سرگرمیوں کو زیادہ تر خفیہ رکھتے تھے۔ اور خود کو محققین پہچنوانے کے بجائے اس سینٹر کے ملازمین ظاہر کرتے تھے۔ (۷) صہیونی ریاست کے سب سے پہلے وزیر اعظم نے فلسطینیوں کی جبری ہجرت کے بارے میں متعدد بار اس سینٹر سے مشورہ کیا۔
۱۹۶۴ میں اس سینٹر نے تل ابیب یونیورسٹی کے ساتھ اپنا تعاون شروع کر لیا اور اس سینٹر کے سیکیورٹی افیسرز تل ابیب یونیورسٹی میں اپنی تحقیقات پیش کرتے تھے۔ ۱۹۸۳ میں تل ابیب یونیورسٹی نے اس سینٹر کو یونیورسٹی کا حصہ بنا لیا اور اس کا نام بدل کر ’’موشے دایان‘‘ سینٹر رکھ دیا۔
موشہ دایان سینٹر کے سربراہ
 
’’اوزی رابی‘‘ اس سینٹر کے سربراہ ہیں وہ تل ابیب یونیورسٹی میں مطالعات ایران کے پروفیسر تھے۔ ان کی تحقیقات مشرق وسطیٰ کی حکومتوں اور معاشروں کے حالات، ایران اور عرب ریاستوں کے تعلقات، مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائر، اہل سنت اور اہل تشیع کے اختلافی مسائل جیسے موضوعات سے مخصوص ہیں۔ (۸)
انہوں نے مذکورہ موضوعات پر کئی کتابیں اور رسالے لکھے ہیں مثال کے طور پر:
۔ The Shi’ite Crescent: An Iranian Vision and Arab Fear)
(The Persian Gulf and the Arabian Peninsula: States and Societies in Transition).
۔
حواشی
[۱] ۲۰۱۴ Global Go To Think Tank Index Report, page 86
[۲] https://dayan.org/journal/tel-aviv-notes-contemporary-middle-east-analysis
[۳] https://dayan.org/journal/bayan-arabs-israel
[۴] http://www.psupress.org/Journals/jnls_Bustan.html
[۵] https://dayan.org/content/middle-east-newsbrief
[۶] The Disenchantment of the Orient: Expertise in Arab Affairs and the Israeli, Page 279
[۷]  https://www.haaretz.com/.premium-ben-gurion-grasped-the-nakba-s-importance-1.5243033#article-comments
[۸] https://dayan.org/author/uzi-rabi

 

عالمی صہیونیت کے مقابلے میں اسلام کی تزویراتی پالیسی

  • ۴۶۵

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر کے مطابق، صہیونی یہودی دنیا کے عام افکار پر اپنا تسلط قائم کر کے پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے پیش نظر عیسائیوں کے ساتھ انہوں نے مذہبی تعلقات برقرار کر کے ان سے کافی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ صہیونی یہودی اگر چہ اندرونی طور پر کسی بھی صورت میں عیسائیوں کے ساتھ مذہبی دوستی کے قائل نہیں ہیں لیکن بظاہر خود کو عیسائیوں کا دوست کہلواتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کا چہرہ بگاڑ کر دنیا میں پیش کریں اور عیسائیوں کو مسلمانوں سے دور کر کے اپنے قریب لانے کی کوشش کریں۔
خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر نے اسی موضوع پر میکسیکو اور اسٹریلیا میں ایران کے سابق سفیر ڈاکٹر “محمد حسن قدیری ابیانہ” کے ساتھ گفتگو کی ہے جس کا ایک حصہ یہاں پر قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
خیبر: عالمی صہیونیت کا مقابلہ کرنے یا اسے کمزور بنانے کے لیے ہمیں کیا اسٹراٹجیک اور تزویراتی پالیسی اپنانا چاہیے؟ آپ کی نظر میں کیا کون کون سے عقلی و منطقی راستے ہیں؟
۔ صہیونی یہودی مغربی ممالک میں اپنا گہرا نفوذ پیدا کر چکے ہیں۔ تقریبا کسی بھی مغربی ملک میں ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص یہودیوں کی مدد کے بغیر کسی سیاسی مقام تک پہنچ سکے۔ صہیونی عرصہ دراز سے دو تزویراتی راستوں کا پیچھا کر رہے ہیں:
الف۔ دنیا کی معیشت اور اقتصاد پر قبضہ
ب۔ میڈیا اور عام افکار پر قبضہ
افسوس کے ساتھ وہ ان دونوں راستوں میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ آج پوری دنیا مخصوصا مغربی ممالک جیسے کینیڈا، اسٹریلیا اور امریکہ کی ثروت صہیونیوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اور میڈیا بھی پرنٹ میڈیا سے لے کر بڑے بڑے ٹی وی چینلز تک سب صہیونیوں کے قبضہ میں ہیں اور اس طریقے سے انہوں نے دنیا کے عام افکار پر اپنا تسلط پیدا کر لیا ہے۔
دنیا میں صہیونیت کو کمزور بنانے کے راستے
صہیونی اپنے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے مسلمانوں کو عیسائیوں کا دشمن اور یہودیوں کا عیسائیوں کا دوست اور خیرخواہ پہچنوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ اسلام نے حضرت مریم (ع) اور حضرت عیسی (ع) کے لیے قرآن مین کئی معجزات نقل کئے ہیں جو حتیٰ انجیل میں بھی نہیں پائے جاتے۔
کیا عیسائی معاشرے کو خبر نہیں ہے کہ قرآن کریم کا ایک سورہ جناب مریم کے نام پر ہے۔(۱) کیا عیسائیوں کو اس بات کی خبر نہیں ہے کہ یہودی جناب مریم (س) اور جناب عیسیٰ (ع) پر بالکل ایمان نہیں رکھتے؟ بلکہ یہودیوں کی نگاہ میں العیاذ باللہ حضرت عیسی حلال کی اولاد نہیں ہیں۔
عیسائیت کی نسبت اسلام اور یہودیت کا نظریہ
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے عوام کے درمیان یہ بیان کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے کہ اسلام کا عیسائیت کے بارے میں کیا نظریہ ہے اور یہودیت کا عیسائیت کے بارے میں کیا نظریہ ہے۔ ان دو موضوعات کی تبلیغ و تفسیر اس بات کا باعث بن سکتی ہے کہ مغربی معاشرے میں صہیونیت کی حقیقت کھل کر سامنے آئے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ یہ ایک اہم ترین کام اور کوشش ہے جو ہمارے لیے نتیجہ بخش ثابت ہو سکتی ہے۔
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہودیت صرف ماں سے بیٹے کو میراث میں ملتی ہے (یعنی یہودی صرف وہ ہے جو یہودی ماں کے شکم سے آیا ہو)۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ خداوند عالم نے حضرت عیسی کو حکم دیا تاکہ فرعون کو دین حق کی دعوت دیں۔ اگر فرعون حضرت موسیٰ (ع) کی دعوت قبول کر لیتا تو آپ کے مریدوں میں اس کا شمار ہوتا۔ حالانکہ وہ بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا۔
یا وہ جادو گر جو فرعون کے دربار میں آئے تھے اور حضرت موسیٰ (ع) کے مقابلے میں اپنے سحر و جادو کو استعمال کرنے میں ناکام ہو گئے تھے اور آخر میں حضرت موسیٰ پر ایمان لے آئے اور فرعون کی دھمکیوں کے باوجود اپنے باطل عقائد کو چھوڑ دینے پر رضامند ہو گئے، یہ جادو گر قوم بنی اسرائیل میں سے نہیں تھے لیکن دین حضرت موسیٰ (ع) پر ایمان لے آئے اور فرعون ملعون کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہودیت اصل میں کوئی قوم نہیں ہے بلکہ ایک الہی دین اور آئین تھا جو انحراف کا شکار ہو گیا۔
اس مسئلے پر جتنی زیادہ تحقیق کی جائے اور یہودیوں کے ان باطل عقائد کو برملا کیا جائے اتنا عام افکار کو یہودیوں کی نسبت آگاہ کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اس راہ میں ہم فلموں، ڈراموں اور دیگر فنکارانہ آثار سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
پیغمبر اسلام(ص) کا دنیا میں تعارف
یہودی حضرت عیسی(ع) کی آمد سے قبل حضرت موسیٰ(ع) کو اولوالعزم، صاحب شریعت اور آخری نبی مانتے تھے۔ حضرت عیسی (ع) کی آمد کے بعد کچھ یہودی آپ پر ایمان لے آئے بغیر اس کے کہ حضرت موسی (ع) پر ان کے ایمان میں کوئی خلل پیدا ہو۔
حضرت عیسی(ع) کے بعد پیغمبر اسلام مبعوث ہوئے۔ اس بات کے پیش نظر کہ بعض یہودی حضرت عیسی(ع) پر ایمان لا چکے تھے یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا ان یہودیوں نے غلط کیا جو حضرت عیسی پر ایمان لائے؟ اور وہ جو حضرت عیسی کو نہیں مانتے تھے اور انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے کیا وہ راہ حق پر تھے؟ اور کیا وہ یہودی اور عیسائی جو حضرت محمد (ص) پر ایمان لائے انہوں نے غلط کیا؟ یہ بات بھی بہت اہم ہے اور ہمیں یہ ثابت کرنا چاہیے کہ پیغمبر اسلام بھی حضرت موسیٰ(ع) اور حضرت عیسی(ع) کی طرح اللہ کے پیغمبر اور خاتم الانبیاء تھے۔
عیسائیوں کے انحرافی عقائد کو چیلنج کرنا
عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی کا گوشت کھانا اور ان کا خون پینا باعث نجات ہے اور اسی بنا پر ان کے یہاں عشائے ربانی نام کی رسومات پائی جاتی ہیں(۲)۔ اسلام اور اسلام کی خالص تعلیمات ان خرافات کا دقیق اور متقن جواب دے سکتی ہیں جو عیسائیوں کی بیداری کا باعث بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ توریت میں کچھ ایسے موارد پائے جاتے ہیں جو عیسائیوں اور یہودیوں کے بہت سارے عقائد اور افکار کو منحرف اور باطل ثابت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر توریت میں نقل ہوا ہے: ایسا نہ ہو کہ تم منحرف ہو جاو اور خدا کو مرد، عورت یا جانور کی صورت میں تصویر کشی کرو، (۳) حالانکہ ہم کلیساوں میں خدا کو (باپ، بیٹے اور روح القدس) کی تصویر میں دیکھتے ہیں باپ کو بوڑھے مرد، بیٹے کو سلیب پر چڑھائے گئے جوان اور روح القدس کو کبوتر کی شکل میں دیکھتے ہیں!
توریت میں آیا ہے کہ بیٹے کا گناہ باپ کی گردن پر نہیں ہے، اور باپ کا گناہ بھی بیٹے کی گردن پر نہیں ہے، یہ بات کلیسا کے عقائد کے برخلاف ہے کلیسا اپنا تجارتی بازار گرم کرنے کے لیے کہتی ہے:
تمام انسان گناہگار پیدا ہوتے ہیں، کلیسا کی دلیل یہ ہے کہ انسان آدم اور حوا کی نسل سے ہیں اور چونکہ آدم و حوا گناہگار تھے لہذا تمام انسان گناہگار ہیں اور وہ اس وقت تک بہشت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ اس گناہ سے پاک نہ ہو جائیں اس وجہ سے عیسائی معاشرے میں معصوم بچے کی تعبیر غلط ہے بلکہ ان کے نزدیک دنیا کے تمام بچے گناھگار ہیں!
عیسائیوں میں “غسل تعمید” (Baptism) اسی پیدائشی گناہ سے پاک ہونے کے لیے انجام دیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ پادری جو خود بچوں کے ساتھ بدکاری کرنے کے گناہ میں مبتلا ہو کیسے ایک انسان کو غسل تعمید کے ذریعے پاک کر کے جنت کی سند دے سکتا ہے؟
مسیحیت میں دینی علماء قدرت الہی میں شریک اور انسان اور خدا کے درمیان واسطہ ہیں۔ لیکن اسلام میں علمائے دین صرف رہنما اور رہبر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ حالانکہ کلیسا اپنے پادریوں کے لیے اتنی زیادہ قدرت کے قائل ہیں۔ اور انہیں پیسے دے کر ان سے بخشش کی سند لے لیتے ہیں جبکہ اسلام میں بخشش صرف اللہ سے مخصوص ہے اور فقط خدا ہے جو اپنے بندے کو معاف کر سکتا ہے۔
یہودیوں کے اس عقیدے کہ یہودیت صرف ماں کے ذریعے میراث میں بیٹے تک منتقل ہو سکتی ہے پر اعتراض کرنے سے یہ مناسب فرصت فراہم ہو گی کہ ہم یہودی اور صہیونی افکار کو چیلنج کر سکیں۔
اسلام کے معجزات کا تعارف
توریت اور قرآن کریم میں لشکر فرعون کے دریائے نیل میں غرق ہونے کا واقعہ موجود ہے۔ جبکہ انجیل میں فرعون کے غرق ہونے کے حوالے سے کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ایسے نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کسی دوسری آسمانی کتاب میں موجود نہیں ہے۔
قرآن کریم میں آیا ہے کہ جب فرعون توبہ کرتا ہے تو خداوند عالم فرعون کی توبہ قبول نہیں کرتا بلکہ فرماتا ہے کہ میں تیرے بدن کو بچا لوں گا اور اسے محفوظ رکھوں گا تاکہ دوسروں کے لیے ہمیشہ عبرت کا نمونہ رہے، لہذا صرف قرآن کریم ہے جو فرعون کی لاش کو دریائے نیل کے ساحل پر پھینک دئے جانے کی خبر دیتا ہے۔(۴)
کچھ سال قبل ماہرین آثار قدیمہ نے مصر کے اہرام کا دورہ کیا اور وہاں فرعون کے جسد کو پایا، انہوں نے اس جسد پر تحقیقات کرنے کے لیے اسے فرانس منتقل کیا۔ تحقیقات اور مطالعات کے بعد ڈاکٹر موریس بوکائلے (Maurice Bucaille) نے اعلان کیا کہ فرعون کی موت کی وجہ دریا میں غرق ہونا تھی۔ یہ یعنی قرآن کا معجزہ۔
اسلام سے قبل توریت، انجیل اور تاریخی کتابوں میں جسد فرعون کے ساحل نیل پر پلٹا دئے جانے کا تذکرہ موجود نہیں تھا، لیکن خداوند عالم نے قرآن کریم میں پہلی بار اس واقعہ کو بیان کیا جبکہ کئی صدیاں اس واقعہ کو بیت چکی تھی اور آج جب کئی سوسال گزرنے کے بعد اس کے جسد پر تحقیق کی جاتی ہے تو قرآن کریم کی حقانیت سامنے آ جاتی ہے۔
فرانسیسی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر موریس بوکائلے کہ جو فرعون کے جسد پر تحقیقات کرنے پر مامور تھے، تحقیقات کے بعد جب اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ فرعون کی موت دریا میں غرق ہونے کی وجہ سے واقع ہوئی تو اس نتیجے کے اعلان کے لیے وہ جدہ کا سفر کرتے ہیں اور ایک کانفرنس میں اپنے نتیجے کا اعلان کرتے ہیں۔ کانفرنس میں ان کی تقریر کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کو پیش کیا جاتا ہے جس میں خداوند عالم نے فرعون کے غرق ہونے اور اس کے جسد کو نجات دینے کا تذکرہ کیا ہے۔ جب ڈاکٹر موریس بوکائلے اس آیت کو سنتے ہیں تو اس کانفرنس میں اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ممکن نہیں پیغمبر اسلام بغیر وحی الہی کے جسد فرعون کے ساحل نیل پر موجود ہونے کے بارے میں خبردار ہو سکیں۔
ڈاکٹر موریس بوکائلے اس واقعہ کے بعد ایک کتاب لکھتے ہیں “انجیل، قرآن اور سائنس” اور اس کتاب میں یوں لکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس کا سائنس انکار کر سکے اور برخلاف بہت سارے ایسے نکات قرآن میں موجود ہیں جنہیں سائنس کے ذریعے ثابت کیا جا سکتا ہے جبکہ انجیل اور توریت کے بہت سارے مطالب کی سائنس منکر ہے۔
میری پیشکش یہ ہے کہ ان مطالب کو جو جسد فرعون پر تحقیق کے حوالے سے پائے جاتے ہیں کو حاصل کریں اور اس طریقے سے قرآن کریم کے معجزات کو دنیا والوں کے لیے بیان کریں۔