امریکہ کے ہاتھوں بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی پامالی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ تحریر میں امریکہ کے اندر انسانی حقوق کی وسیع پامالی کی طرف اشارہ کیا گیا اور درج ذیل تحریر جو گزشتہ مضمون کا دوسرا حصہ ہے میں بین الاقوامی سطح پر امریکہ کے ہاتھوں پامال ہونے والے انسانی حقوق کے چند نمونوں کو بیان کیا گیا ہے۔
دوسرا حصہ: امریکہ کے ہاتھوں بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی پامالی
بین الاقوامی سطح پر امریکی مداخلتوں، اور رویوں کے نتیجے میں غیر معمولی اور غیر روایتی خوفناک مسائل سامنے آتے ہیں جو بین الاقوامی قوانین نیز اقوام متحدہ کے منشور، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیئے، جنیوا کے چار کنونشنوں میں مندرج قوانین (انسان دوستانہ قوانین)، اور بین الاقوامی عرف کی شدید خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
۱) بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کا استعمال
باوجود اس کے کہ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ ۲ کی شق نمبر ۴ کے مطابق، طاقت کا عدم استعمال ایک مسلمہ اصول کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے لیکن امریکہ نے بےبنیاد حیلوں بہانوں سے حالیہ چند عشروں میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر جارحیت کا ارتکاب کرکے ان پر فوجی طاقت سے قبضہ رچایا ہوا ہے۔ آخری تین مثالیں: افغانستان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرنا، عراق پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرنا، شام پر حملہ کرکے قبضہ کرنے میں ناکام ہونا۔
قبضہ گری کے ان اقدامات میں امریکہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر عسکری حملہ کرتا ہے اور جنیوا کنونشنوں سمیت بین الاقوامی قوانین کو پامال کردیتا ہے اور اب تو قوانین کی خلاف ورزی امریکہ کے معمول کا کام بن چکا ہے۔ [اور وہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ اقوام عالم کے لئے منظور شدہ قوانین سے بالاتر ہوکر ان کی منظم خلاف ورزی کیا کرے]۔
الف) جنگی قیدیوں کے حقوق کی عدم رعایت
افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کے جنگی قیدیوں کو امریکہ نے خلیج گوانتامو کے غیر قانونی قیدخانوں میں منتقل کیا اور ان کے ساتھ وحشیانہ رویہ روا رکھا، انہیں ٹارچر کیا اور ان پر تشدد کے مختلف قسم کے حربے آزمائے۔ اور یہ جنیوا کنونشن کے چوتھے کنونشن کی کھلی خلاف ورزی تھی، کیونکہ یہ افراد جنگی قیدی تھے۔ واضح رہے کہ امریکہ نے افغان طالبان کے ۱۲۰۰۰ جنگجؤوں کو گرفتار کیا تھا جن میں سے بمشکل ۳۵۰۰ یا زیادہ سے زیادہ ۴۰۰۰ افراد زندہ رہے اور رہا ہوئے۔
امریکہ نے عراقی قیدیوں اور سینکڑوں جنگی قیدیوں کو صحرائی چھاؤنیوں میں رکھا جہاں پینے کا صاف پانی اور حفظان صحت کے وسائل ناپید تھے۔ اور انہیں تشدد اور آزار و اذیت کا نشانہ بنایا۔
ب) نہتے عوام کو غیر روایتی ہتھیاروں کا نشانہ بنانا
امریکہ نے افغانسان کے دیہی علاقوں کو ویکیوم بموں کا نشانہ بنایا جو علاقے کو مکمل طور پر تباہ کردیتے تھے اور دیہاتوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کیا۔ حتی امریکیوں نے ان بموں سے خوست کے اسپتال کو نشانہ بنایا اور سینکڑوں مریضوں اور زخمیوں کو قتل کردیا۔ عراق کے مختلف علاقوں میں کمزور شدہ یا کم تابکار یورینیم (Depleted uranium) کے حامل بموں کا وسیع استعمال کرکے عراق کی موجودہ اور آئندہ نسلیں تابکاری کے اثرات سے متاثر ہوئیں۔
۲) جارحوں اور دہشت گردوں کی حمایت
جارح ملکوں اور دہشت گردوں کے لئے امریکی حمایت “سخت حمایت اور نرم حمایت” (Hardware support & Software support) پر مشتمل ہے۔ صدام کی بعثی حکومت نے ایران پر حملہ کیا تو امریکہ نے اس کو ہتھیار دیئے اور دلوائے اور اس کے لئے رسد کا مسلسل انتظام کیا۔ اسرائیل نامی یہودی ریاست نے فلسطین پر قبضہ کرلیا اور اپنے منحوس آغاز سے لے کر آج تک مقبوضہ فلسطین کے پڑوسی ملکوں پر حملے کررہی ہے اور ان حملوں میں امریکہ کے دیئے ہوئے ہتھیار اور ہر قسم کے سازو سامان کو استعمال کیا جارہا ہے۔ یمن پر سعودی اور اماراتی حکومتوں نے حملہ کیا تو ان کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا اور ساتھ ہی امریکی طیارے سعودی عرب اور امارات کے امریکی ساخت کے جنگی طیاروں کو فضا میں ایندھن فراہم کرتے ہیں اور ان کے طیاروں کی نگہداشت اور تعمیر و مرمت کی ذمہ داری بھی امریکیوں کے پاس ہے جبکہ امریکہ سیارچے سعودیوں اور اماراتیوں کو تسلسل کے ساتھ جنگی معلومات فراہم کرتے ہیں۔
امریکہ اور اس کی حمایت یافتہ عرب ریاستیں داعش، القاعدہ اور النصرہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو امداد فراہم کرتی ہیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ براہ راست یا پھر امریکی حکومت دوسری روشوں سے دہشت گردوں کو ابلاغیاتی مدد بھی فراہم کرتی ہے اور ان کی تشہیری مہم میں کردار ادا کرتی ہے اور ایران کے خلاف اقدامات بھی در حقیقت ان دہشت گرد ریاستوں کی پشت پناہی شمار ہوتے ہیں جو علاقے کے ممالک کے خلاف جارحیت میں مصروف ہیں۔
– جس وقت امریکہ کے اشارے پر صدام نے ایران کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا اور امریکہ اور اس کے حاشیہ بردار ممالک نے ہر لحاظ سے صدام حکومت کی امداد کو اپنا فریضہ سمجھا اسی وقت امریکہ نے ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کردیں۔
– اقوام متحدہ کی مجلس عمومی اور سلامتی کونسل میں یہودی ریاست کے خلاف ۶۰ سے زائد قراردادیں منظور ہوئیں جنہیں امریکہ نے ویٹو کردیا۔
– ان عوامی تنظیموں اور اداروں کو شدید ترین نفسیاتی اور سیاسی و سماجی مسائل اور مشکلات سے دوچار کیا جاتا ہے جو یہودی ریاست کی جارحیتوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں۔ جن میں فلسطینی جماعتیں اور لبنانی نیز وہ یمنی تنظیمیں شامل ہیں جو یمن پر سعودی جارحیت کے خلاف جدوجہد کرتی ہیں۔
۳) امریکہ کے اندر بین الاقوامی قوانین اور اقوام کے حقوق پامال کرنے کے لئے قوانین کی منظوری
عجیب ہے کہ امریکہ اپنے ملک کے اندر قوانین منظور کرتا ہے اور انہیں بیرون ملک نافذ کرتا ہے جس کی وجہ وہ بیرونی ممالک بھی ہیں جو خدا کے احکام کو تو معطل کرسکتے ہیں لیکن امریکہ کے احکامات کی پیروی کو اپنی نجات کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔
امریکہ نے ۱۷ اکتوبر سنہ ۲۰۰۶ع‍ کو “فوجی کمیشن” نامی قانون (Military Commissions Act of 2006) منظور کیا جس کے تحت امریکہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں واقع کسی بھی ملک کے قوانین اور قومی سالمیت اور حق حکمرانی کو پامال کرکے کسی بھی ملک کے باشندوں کو ـ جو امریکیوں کے خیال میں “دشمن” قرار پائے ہوں ـ گرفتار کرکے شکنجہ کرسکتے ہیں، ان پر اپنے ملک میں مقدمہ چلا سکتے ہیں اور انہیں سزا دے سکتے ہیں اور شکنجے (ٹارچر) اور جسمی اور نفسیاتی دباؤ کی از سر نو تعریف کرسکتے ہیں اور رائج تعاریف کو بدل سکتے ہیں۔ [یعنی وہ اپنی طاقت کو حتی کہ سچ اور جھوٹ اور حق و باطل کی جگہ بدلنے کا جواز سمجھتے ہیں جو ایک استکباری اور انسانیت دشمن روش ہے]۔
لندن سے شائع ہونے والے اخبار “الحیات” نے ۱۵ اپریل سنہ ۲۰۰۷ع‍ کو “بین الاقوامی قانون کے چہرے پر امریکی طمانچہ” کے زیر عنوان لکھا کہ فلسطین، لبنان، عراق اور دوسرے ممالک کے عوام کا قتل عام جنیوا کنونشنوں اور مفاہمت ناموں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
۴) دوسرے ممالک پر یکطرفہ پابندیاں لگانا
اس کے باوجود کہ اقوام متحدہ کا منشور رکن ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کے فروغ (دفعہ ۱، شق ۲)، دوسرے ممالک میں عدم مداخلت (دفعہ ۱، شق ۷)، اختلافات کا پرامن حل (دفعہ ۲، شق ۳) اور سماجی و اقتصادی ترقی کے سلسلے میں تعاون کی دعوت دینا۔ جبکہ امریکہ ان ساری دفعات اور شقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ناجائز مفادات اور خواہشات کی تکمیل کے لئے خودمختار، آزاد اور واشنگٹن کی راہ پر گامزن نہ ہونے والے ممالک پر پابندیوں سے بین الاقوامی حربے کے طور پر فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسرے ممالک کو بھی اس طرح کی پابندیوں کا ساتھ دینے پر مجبور کرتا ہے؛ جبکہ یہ پابندیاں قطعی طور پر بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
۵) انسانی حقوق اور انسان دوستانہ قوانین کے فروغ میں عدم تعاون
امریکہ مختلف بین الاقوامی کنونشنوں سے مسلسل پہلو تہی کرتا رہا ہے اور بعض مواقع پر ان کنونشنوں کے برعکس رویے اپناتا رہا ہے جن میں سے بعض کچھ یوں ہیں:
– اقوام متحدہ کنونشن برائے حقوق اطفال (Convention on the Rights of the Child)
– تشدد کے خلاف کنونشن کے اختیاری پروٹوکول (Optional Protocol to the Convention against Torture [OHCHR])
– بین الاقوامی کنونشن برائے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق (Convention on Economic, Social, Cultural Rights)
– جبری گمشدگیوں سے لوگوں کی حفاظت کا بین الاقوامی کنونشن (International Convention on the Protection of Individuals with regard to the Forced Disappearance [ICPPED] )
– بین الاقوامی فوجداری عدالت کے روم قانون (International Criminal Court Statute or the Rome Statute) –
– جنیوا کے چار کنونشنوں کے اضافی پرٹوکول (انسان دوستانہ قوانین)
– حقوق انسانی کا بین الاقوامی قانون (International human rights law [IHRL])
انسانی حقوق کمیشن کے اعلان کے مطابق، امریکہ نے انسانی حقوق کی کسی بھی دستاویز میں رکنیت حاصل نہیں کی ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ میں کوئی بھی ایسا مستقل ادارہ نہیں ہے جو تین مقامی، ریاستی اور وفاقی شعبوں میں انسانی حقوق کی پیروی کی نگرانی کرے اور امریکہ مختلف روشوں (دھمکی اور رشوت) کے ذریعے سے اس سلسلے میں بین الاقوامی نگرانی کی راہ میں روڑے اٹکاتا آیا ہے۔
امریکی حکام ان غیر قانونی اور انسان دشمن رویوں کے لئے یا تو غیر منطقی اور متکبرانہ دلائل پیش کرتے ہیں یا پھر “طاقت کی منطق” سے اپنا کام نکالتے ہیں۔ بطور مثال بش دور کی امریکی وزیر خارجہ کانڈولیزا رائس سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا: “اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے بیان کردہ انسانی مفادات امریکہ کے قومی مفادات کے بعد دوسرے درجے میں آتے ہیں”۔
چینی حکومت نے سنہ ۲۰۱۷ع‍ میں ایک دستاویز کے ضمن میں امریکی حکومت کے ہاتھوں حقوق انسانی کی پامالی کے ذیل کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، امریکہ پر تنقید کی:
– نسلی امتیازات، شہریوں کے حقوق کی پامالی، گولی چلانے کے ہلاکت خیز واقعات اور تعلیمی اداروں [یونیورسٹیوں اور اسکولوں] میں طلبہ کا قتل؛
– امریکہ میں امیر اور غریب کے درمیان کا فاصلہ ہر روز بڑھ رہا ہے، خواتین اور بچوں کو روزمرہ معاملات میں نسلی امتیازات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں خودسرانہ گرفتاریوں، دوسرے ممالک پر سائبر حملوں اور گوانتانامو قیدخانے سمیت امریکی جیلخانوں میں قیدیوں کے حقوق کے نظرانداز کئے جانے کی بنا پر امریکہ پر نکتہ چینی ہوئی ہے۔
بین الاقوامی قوانین میں انسانی حقوق کی پابندی کی ضرورت پر زور دیئے جانے کے باوجود امریکہ کے اندر اور اس سے باہر، امریکیوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سنجیدہ تنقیدات روز بروز زیادہ سے زیادہ وسیع سطح پر سامنے آرہی ہیں، مگر اس کے باوجود یہ حکومت انسانی حقوق نیز انسان دوستانہ قوانین کی عدم رعایت پر اصرار کرتا نظر آرہی ہے اور اپنے خطرناک رویوں اور اقدامات کے ذریعے ملک کے اندر اور باہر کروڑوں بےگناہ انسانوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا پھر انہیں خاک و خون میں تڑپا رہی ہے۔ امریکہ نے گذشتہ صدی میں بھی اور موجودہ صدی کے آغاز سے بھی، بنی نوع انسان پر تباہ کن جنگیں مسلط کرکے بین الاقوامی امن و آشتی کو سنجیدہ خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
امریکہ نے سنہ ۱۹۴۵ع‍ میں برطانوی استعمار کے وارث کی حیثیت سے ابھرنے کے بعد سے اب تک انسانی حقوق کو بہانہ بنا کر دوسری حکومتوں کو بلیک میل کرکے ان کی سرزمینوں پر قبضہ کیا ہے [مثال: میکسیکو]؛ یا پھر بہت سے ملکوں کی حکومتوں کو بلیک میل کرکے ان سے سیاسی اور اقتصادی رعایتیں لی ہیں اور یہ اس کا جاری رویہ ہے جو کہ حال ہی میں عالمی آگہی میں اضافے اور استکباری سرکار کی طاقت کی تنزلیوں کی بدولت کسی حد تک کمزور پڑ گیا ہے۔ المختصر، یہ تسلط پسند استکباری حکومت انسانی حقوق کو آج تک اپنا تسلط بڑھانے کے لئے ایک اوزار اور حربے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے اور نہ ملک کے اندر نہ ہی اس کے باہر، حقوق انسان، حقوق نسوان، حقوق اطفال، قیدیوں کے حقوق، وغیرہ وغیرہ پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ امریکہ حتی کہ ان ممالک میں بھی انسانی حقوق کی پابندی کو کوئی اہمیت نہیں دیتا جن پر وہ اسی حوالے سے تنقید کرتا ہے، وہ تو صرف اس حربے کے ذریعے اپنا مفاد چاہتا ہے اور یہ الگ بات ہے کہ دنیا کی مطلق العنان ترین اور انسان دشمن ترین حکومتوں کا حامی و سرپرست امریکہ ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: عباس مختاری/ بین الاقوامی قوانین کے ماہر
ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی