-
Saturday, 1 August 2020، 10:42 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، غروب اور طلوع اللہ کی نشانیاں ہیں اور جیسا کہ معلوم ہوتا ہے مقولہ “ایام گردش میں ہیں [یا ایام مسلسل تبدیل ہوتے جا رہے ہیں] یعنی مطلب یہ ہے کہ دنیا صرف انسانوں کے حوالے سے ہی تبدیل نہیں ہوتی بلکہ ریاستوں اور حکومتوں کے حوالے سے بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے؛ لیکن تاریخ اس زمانے میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے جس کا سبب شاید مواصلاتی انقلاب ہے ـ کیونکہ وقت کی پیدائش فیمٹو سیکنڈ سے ہونے لگی ہے ـ چنانچہ عین ممکن ہے کہ ہم بعض واقعات کو دنوں میں دیکھ سکیں جو اس سے پہلے صدیوں میں رونما ہوا کرتے تھے۔
امریکی اور اسرائیلی راہنماؤں کے حالات پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات وہ نہیں ہیں جو امریکہ اور اسرائیل چاہتے تھے؛ کیونکہ سیاسی راہنما عروج، تابندگی اور انحطاط و زوال کے لحاظ سے دوسرے ملکوں کی طرح ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ٹرمپ جیسا شخص امریکہ کی خانہ جنگی، دو عالمی جنگوں یا حتی سرد جنگ جیسے حالات میں امریکہ کی قیادت کر سکے؛ نیز بن گورین یا گولڈامائر اور نیتن یاہو میں بہت زیادہ فرق ہے۔ وہ یوں پسپائی اور زوال کے دور کے راہنما زیادہ بدعنوان اور زیادہ جھوٹے ہوتے ہیں۔
محض راہنماؤں کے سلسلے میں موجودہ تاثرات اور ان کی سطح پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ممالک کی معاشی اور سماجی صورت حال اور درپیش مسائل زیادہ اہمیت کے حامل مسائل ہیں۔ بے شک امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے اور اس کے پاس دنیا کی سب سے طاقتور فوج بھی ہے لیکن:
– اس ملک میں کھپت کی مقدار پیداوار سے کہیں زیادہ ہے۔ دوسری بڑی وجہ وہ دشواریاں ہیں جو دوسری طاقتوں کے ساتھ رقابت و مسابقت کے حوالے سے درپیش ہیں۔
– کسی زمانے میں ہینری کیسنگر (Henry Kissinger) اور زبیگینیو برڑینسکی (Zbigniew Brzezinski) نے چین کے ساتھ تعلقات بحال کئے تا کہ اس کو لگام دیں، اسے سوویت اتحاد سے اس کو دور رکھیں، تا کہ بعد میں یہ ملک آزاد عالمی تجارت کے معاہدے میں شامل ہوجائے، لیکن چین روز بروز امریکی معیشت کے لئے خطرناک سے خطرناک تر ہوتا گیا اور قرض دینے والے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ تجارتی توفیر (Trade surplus) کے مالک ملک میں تبدیل ہوا۔
– زیادہ تر امریکی مصنوعات چین جنوبی کوریا اور بھارت سمیت رو بہ عروج معیشتیں وہ ممالک نہیں ہیں جن کی امریکیوں کو توقع تھی؛ امریکہ تو سمجھ رہا تھا کہ ان ممالک پر ـ قدیم سامراجیت کی طرف پلٹے بغیر ـ دور سے تسلط جمائے ہوئے ہے۔ کیونکہ وہ سب سے بڑے بینکوں پر مسلط تھا اور ڈالر کو ـ سونے کے امدادی کردار کو ہٹانے کے باوجود ـ عالمی زر مبادلہ میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا؛ بالفاظ دیگر امریکی ڈالر محض شہرت اور بین الاقوامی اعتبار کی بنا پر معتبر عالمی زر میں بدل ہو چکا تھا۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور ٹرمپ حکومت آزاد تجارت کا معاہدہ پھاڑنے کے لئے پر تول رہی ہے۔
– ڈالر اور امریکی اعتبار اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے چنانچہ مسٹر ٹرمپ عالمی معاہدوں میں مقررہ عہد و پیمان کی پابندیوں سے جان چھڑا کر اور عالمی حالات کے منطقی تبدیلیوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے، ان معاہدوں سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں اور اب وہ دھونس دھمکی، دباؤ اور بلیک میلنگ وغیرہ کے ذریعے اپنا تسلط زور زبردستی کے واسطے سے بحال رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی امریکی پالیسی کی بنیاد پر ایک سادہ مگر بہت خطرناک واقعہ رونما ہوا۔
ہوا یوں کہ کینیڈا پولیس نے چین کی ہواوی کمپنی (Huawei Technologies Co.) کی مالیاتی منتظمہ محترمہ مینگ وانژو (Meng Wanzhou) کو ـ امریکہ کی تحویل میں دینے کے لئے ـ گرفتار کرلیا۔ الزام یہ تھا کہ انھوں نے ایران پر لگی [امریکی] پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اپنے اندرونی قوانین کو دنیا بھر میں نافذ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے [اور اس سلسلے میں وہ دوسرے ملکوں کے باشندوں کو دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اغوا کرنے تک آگے جا سکتا ہے]۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کا چین اور ایران کے درمیان تجارت سے کیا تعلق ہے؟ بہرحال اس اقدام نے چین کو غضبناک کیا اور اس نے بحران میں اضافہ کرنے کی دھمکی دی۔
یہودی ریاست (اسرائیل) کی صورت حال بہت خراب ہے، اور اس کی بدحالی امریکی زوال پذیر اور تقسیم شدہ صورت حال سے، کم نہیں ہے؛ کیونکہ وہ نہ تو [ماضی کی طرح مزید] علاقے کے ممالک کے لئے خوفناک نیزے کا کردار ادا کرنے کے قابل ہے اور نہ ہی علاقے میں امریکہ اور یورپ کی یَدِ طُولیٰ [اور ان کی بالادستی کی علامت] سمجھی جاسکتی ہے۔ اس ریاست کی حالت عربوں کے شدید اختلافات کے باوجود، بہت زیادہ خراب ہیں۔ یہاں تک کہ لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں چھوٹی چھوٹی سی تنظیموں کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے۔ یہودی ریاست جانتی ہے کہ حزب اللہ اور فلسطینی تنظیموں سے لڑنے بھڑنے کے نقصانات اس کے لئے برداشت کرنا بہت دشوار ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس ریاست کے فضائی حملوں کو بھی مزید خوفناک نہیں سمجھا جاتا؛ کیونکہ مزاحمت تنظیموں نے سرنگیں کھود کر ان حملوں کو کافی حد تک ناکارہ بنا دیا ہے نیز میزائل شکن اور طیارہ شکن نظامات بھی علاقے میں موجود ہیں اور پھر اس کے ہر حملے کے جواب میں مختلف روشوں سے جوابی حملوں کو بھی سہنا پڑتا ہے۔
یہودی ریاست کے انتہا پسند حکام پوری طرح اقتدار پر قابض ہیں، چنانچہ وہ امن و آشتی کے تمام راستے بند کردیتے ہیں، چنانچہ اب وہ جنگ سے عاجز آ چکے ہیں اور امن کے قیام کے سلسلے میں بھی ضعیف اور کمزور ہوچکے ہیں۔
امریکہ اور یہودی ریاست کی پسپائی اور تنزلی یقینی ہے لیکن یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی انتہا اور ان کا خاتمہ قریب ہے؛ امریکہ ابھی تک ایک طاقتور ملک ہے اور اسرائیل کے پاس بھی کافی طاقت ہے، اور اسرائیلیوں کی طرف سے شور و غل مچانے میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ وہ ہنوز اذیت و آزار کی قوت رکھتے ہیں؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکہ مزید اپنا تسلط جمانے کی صلاحیت کھو چکا ہے؛ اور اس کے ساتھ ساتھ یہودی ریاست کی حالت بھی ایسی ہی ہے؛ اور ہاں! اگر انھوں نے طاقت کے ذریعے وقت کو ماضی کی طرف پلٹانے کی کوشش کی اور جبر کے ذریعے اپنا تسلط ٹھونسنا چاہا تو یہ ان کے مشترکہ دور کے مکمل خاتمے اور ان کے مکمل زوال کا باعث ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: مصطفی السعید، الاہرام (مصر)
اردو ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارسی متن کا لنک: http://asrdiplomacy.ir/47832