-
Friday, 31 July 2020، 12:25 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ دنیا بھر میں اپنا تسلط جمانے کے لئے انسانی حقوق بالخصوص حقوق نسواں وغیرہ کی پامالی کے دعوے کرتا ہے اور دوسرے ملکوں پر الزام دھرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ کچھ خودمختار ممالک اور بعض انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے امریکہ میں انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی پامالی کے بارے میں بھی کبھی کبھی کچھ تنقید آمیز باتیں سنائی دیتی ہیں گوکہ منفعل دنیا اپنی صفائیاں پیش کرتے کرتے امریکی دنیا کی خوشنودی میں اس قدر مصروف ہے کہ اسے امریکیوں کے ہاتھوں انسان کی تذلیل کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کا کردار ہم سب کے سامنے ہے، کبھی تو لگتا ہے کہ یہ عالمی ادارہ امریکہ کی غلامی کو اپنا فریضہ سمجھتا ہے جیسا کہ بہت سے سیاسی اور عسکری امور میں دیکھا جاسکتا ہے؛ لیکن امریکہ کے اندر انسانی حقوق کی حالت اتنی نازک ہوچکی ہے کہ امریکہ اور یورپ کی جارحیتوں کے لئے راہ ہموار کرنے والے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کو بھی اپنی رہی سہی ساکھ کے بچاؤ کے لئے، بولنا پڑ رہا ہے۔
لندن میں تعینات انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشل (Amnesty International) کی ۲۰۱۶ع کی سالانہ رپورٹ میں دنیا بھر میں خاتون قیدیوں کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے بیان کرتی ہے کہ خاتون قیدیوں کے لحاظ سے دنیا کا سب سے پہلا ملک امریکہ ہے۔
سب سے زیادہ قیدی خواتین کس ملک میں ہیں؟
سنہ ۲۰۱۶ع میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی آخری سالانہ رپورٹ کے ضمن میں دنیا بھر میں خاتون قیدیوں کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ دنیا بھر میں خاتون قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے امریکہ اپنی آبادی کے پیش نظر پہلے درجے پر “فائز” ہے۔
بعض بین الاقوامی ادارے اور خودمختار ممالک عرصہ دراز سے ناقابل انکار دستاویزات پیش کرکے امریکہ میں انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے آئے ہیں لیکن منفعل دنیا اپنے اوپر لگے الزامات کی صفائیاں پیش کرتے کرتے امریکی دنیا کی خوشنودی میں اس قدر مصروف رہی ہے کہ اسے امریکیوں کے ہاتھوں انسان کی تذلیل کے بارے میں سوچنے تک کی فرصت ہی نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی کا جائزہ دو پہلؤوں سے لیا جاسکتا ہے:
اندرونی لحاظ سے پناہ گزینوں، سرخ فاموں، سیاہ فاموں، زرد فاموں، غرباء اور قیدیوں کے حقوق کی پامالی، جیلخانوں کی حالات و کیفیات، فوجداری قوانین، ملزموں پر پولیس کا تشدد وغیرہ؛ اور بیرونی لحاظ سے جیسے: دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت، دوسرے ممالک پر جارحیت، جیسے: پاکستانی، شامی، افغانی، یمنی اور عراقی عوام پر ڈرون حملے، سائبر حملے، خودمختار ممالک بالخصوص ایران کے عوام پر ظالمانہ معاشی پابندیاں، القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد ٹولوں کی دیکھ بھال اور حمایت وغیرہ۔
دوسرے ممالک پر انسانی حقوق اور انسان دوستانہ اقدامات کی دشمن ریاستوں کی جارحیتوں کی حمایت جیسے: فلسطینیوں اور مقبوضہ فلسطین کے پڑوسی ممالک پر حمایت قابض اور غاصب یہودی ریاست کی جارحیتوں کی حمایت، سعودی ریاست کی یمن پر جارحیت کی حمایت، انسانی حقوق کے کنونشنوں میں عدم شمولیت یا بعض بین الاقوامی مفاہمت ناموں سے علیحدگی۔
اس تحریر میں امریکہ میں سنہ ۲۰۱۵ع اور سنہ ۲۰۱۸ع کے درمیان انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کو انسانی حقوق کے رپورٹروں اور ماہرین سمیت بین الاقوامی ماہرین، نیز اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کی آراء اور رپورٹوں کی روشنی میں اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حصۂ اول: امریکہ کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزی
الف) پناہ گزینوں کے حقوق کی پامالی
انسانی حقوق کے خصوصی کمشنر زید رائد الحسینی، نے ۷ مارچ سنہ ۲۰۱۸ع کو انسانی حقوق کونسل کے سینتیسویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: مجھے امریکہ کی جنوبی سرحدوں پر پناہ گزینوں کی نگہداشت کی صورت حال کے بارے میں ملنے والی رپورٹوں کو دیکھ کر شدید صدمہ ہوا۔ اطفال کو نامناسب حالات، شدید سردی میں والدین سے دور رکھا جارہا ہے۔ مدتوں قبل قانونی دستاویزات کے حامل پناہ گزینوں کو گرفتار کرکے ملک سے نکال باہر کرنے جیسے اقدامات میں اچانک اضافہ ہوا ہے، خاندانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہے، اور امریکہ کی حکومت میں مرکزی امریکہ کے پناہ گزینوں کی پناہ کو منسوخ کر رہی ہے۔
امریکی انسانی حقوق کے ادارے “ہیومین رائٹس واچ” نے بھی بعض امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا: ٹرمپ نے بعض مسلمان ممالک کے باشندوں کی امریکہ آنے پر پابندی لگائی ہے، پناہ گزینوں کے خلاف سختگیرانہ پالیسیاں نافذ کررہے ہیں؛ اور بچوں کو جبر و ستم کے ساتھ والدین سے الگ کرتے ہیں، انہیں نہایت افسوسناک صورت حال میں رکھا جاتا ہے۔ بطور مثال مرکزی اور جنوبی ۲۵۰۰ بچے ـ جو اپنے والدین اور اہل خانہ کے ساتھ میکسیکو کی سرحد سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں داخل ہونا چاہتے تھے ـ کو امریکی سرحدی افواج نے والدین سے جدا کرکے “پنجروں (cages) میں منتقل کیا، جن میں سے ۱۰۰ سے زائد بچے چار سال سے کم عمر کے تھے۔
امریکی یہ سب ایسے حال میں کررہے ہیں کہ عالمی قوانین پناہ گزینوں کی حمایت کرتے ہیں اور ممالک کے مناسب سلوک کا پابند بناتے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف (International Court of Justice) “پناہ گزین” یا “مہاجر” کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتی ہے: “پناہ گزین (یا مہاجر) وہ ہے جو کسی حکومت کی طرف سے مطلوب ہے اور دوسرا ملک اس کی حمایت کردیتا ہے”۔
انسانی حقوق کے اعلامیے کے قانون کی دفعہ ۱۴ میں مقرر ہوا ہے کہ “ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ تعاقب، شکنجے، تشدد اور آزار و اذیت سے بچنے کے لئے پناہ تلاش کرے اور دوسرے ملک میں پناہ حاصل کرے”۔
سنہ ۱۹۵۱ع کے کنونشن کے بعض دفعات میں پناہ گزینوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے:
اس قانون کے دفعہ نمبر ۳ میں حکومتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کے ساتھ مختلف مسائل میں کسی بھی قسم کے امتیازی رویے روا رکھنے سے پرہیز کریں۔
دفعہ نمبر ۴ میں مذہبی اعمال انجام دینے سمیت پناہ گزینوں کے لئے مختلف قسم کی آزادیاں قرار دی گئی ہیں۔
دفعہ نمبر ۷ میں روزگار کو پناہ گزینوں کا حق سمجھا گیا ہے۔
دفعہ نمبر ۱۷ اور ۱۸ میں پناہ گزینوں کے انسانی حقوق کے بارے میں سفارشات کی گئی ہیں۔
دفعہ نمبر ۲۶ میں پناہ گزینوں کے لئے نقل و حرکت اور آمد و رفت کی آزادی کے سلسلے میں سفارشات دی گئی ہیں۔
اور اسی طرح کی دیگر دفعات، اور تمام ممالک کا فرض بنتا ہے کہ پناہ گزینوں کے ساتھ انسانی اور مناسب برتاؤ روا رکھیں۔
ب) جیلخانوں کی صورت حال اور قیدیوں کے حقوق
الحسینی نے اپنی رپورٹ میں کہا: میں امریکی حکومت کی طرف سے خلیج گوانتانامو میں کم عمر لڑکوں کے قید خانوں کی بندش کے منصوبے پر عملدرآمد روکے جانے اور ان قیدخانوں میں قیدیوں کے لئے مقدمہ چلائے بغیر سزاؤں کے تعین کی وجہ سے فکرمند ہوں جہاں قیدیوں کو غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا ہے اور یہ اقدام انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
امریکہ میں ہر سال ۱۲ لاکھ افراد کو قید کیا جاتا ہے اور رپورٹوں کے مطابق پوری دنیا میں [آبادی کے تناسب سے] قیدیوں کی سب سے بڑی تعداد امریکہ میں ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ۵ ستمبر ۲۰۱۶ع کو اپنی آخری رپورٹ میں امریکی جیلوں میں خواتین کی صورت حال کے بارے میں واضح کیا ہے کہ امریکی آبادی کے تناسب سے، خاتون قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی امریکہ پہلے نمبر پر ہے۔ امریکہ کی خواتین کی آبادی دنیا کی خواتین کی آبادی کے ۵ فیصد کے برابر ہے لیکن دنیا بھر کی تمام خاتون قیدیوں کا ۲۳ فیصد حصہ امریکی جیلوں میں بند ہے۔
سی این این نے ۵ ستمبر ۲۰۱۷ع نے امریکی قیدخانوں میں خاتون قیدیوں کی صورت حال پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ میں قید خواتین کی اکثریت کا تعلق غیر سفید فام نسلوں سے ہے۔
سی این این کی رپورٹ میں بیان کیا گیا: امریکی حکومت نے عورتوں کے حقوق کو نظرانداز کیا ہے اور ان کے مسائل کو وہ بہت کم توجہ دیتی ہے۔ عورتیں مالی لحاظ سے تنگ دست ہیں اور قیدخانوں میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں۔ خواتین اپنے بچوں سے بہت دور ہیں اور یہ رویہ خاندانی ادارے پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔
پ) غرباء اور مساکین
اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر فلپ جی آلسٹن (Philip G. Alston) نے آلاباما، جارجیا، مغربی ورجینیا اور واشنگٹن ڈی سی میں اپنی تحقیقات کے بعد بیان کیا: اگرچہ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا امیر ملک ہے لیکن اس ملک کی ۴۰ فیصد آبادی غربت میں مبتلا ہے۔ ریاست آلاباما میں آنتوں کے طفیلی کیڑے بہت عام ہیں کیونکہ گھروں کے ساتھ بہت زیادہ کوڑا کرکٹ جمع رہتا ہے۔ میں نے لاس اینجلس میں بہت سارے انسانوں کو دیکھا جو صرف زندہ رہنے کے لئے تگ و دو کررہے ہیں۔
آلسٹن نے کہا: میں نے سنا ہزاروں انسان، جو مقروض ہونے کے خطرے کا سامنا کررہے ہیں، صرف اس لئے ـ ارادی طور پر ـ پہلے سے خبردار نہیں کیا جاتا کہ جن مقروض افراد کے پاس ادائیگی کے لئے رقم نہ ہو انہیں جیلخانوں میں بند کیا جائے، ان کے اموال اور املاک کو ضبط کیا جائے اور ریاستی خزانہ بھر جائے۔
انھوں نے مزید کہا: میں نے سنا کہ منشیات کی وجہ سے موت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور آٹھ امریکیوں میں سے ایک شخص غربت و افلاس میں زندگی بسر کررہا ہے اور یوں امریکی غریبوں اور مفلسوں کی تعداد چار کروڑ افراد تک پہنچ چکی ہے۔
سنہ ۲۰۱۶ع کے صدارتی انتخابات کے نامزد امیدوار اور ڈونلڈ ٹرمپ کے رقیب، سینیٹر برنی سینڈرز (Bernie Sanders) نے مئی ۲۰۱۶ع کو اعتراف کیا کہ صحت اور حفظان صحت نیز شدید غربت کی وجہ سے امریکہ کے بعض علاقوں میں متوقعہ عمر کی شرح میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔
ت) غیر سفید فاموں کے حقوق کی صورت حال
امریکی ویب گاہ “لاپروگریسیو” (laprogressive[.]com) نے اپنی ایک رپورٹ میں سیاہ فام قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں لکھا: امریکی جیل خانوں میں سیاہ فاموں کی تعداد ان سیاہ فاموں کی تعداد سے تجاوز کرگئی ہے جنہیں سنہ ۱۸۵۰ع کی خانہ جنگی میں اور اس سے قبل کے برسوں میں، غلام بنایا گیا تھا اور امریکہ کے سیاہ فام اکثریتی علاقوں میں ممکن ہے کہ ہر ۵ سیاہ فاموں میں سے چار افراد اپنی زندگی میں ایک یا کئی بار مختلف الزامات میں گرفتار کئے گئے ہوں یا حتی کہ عدالتوں کے نظام میں الجھ گئے ہوں۔ اس المناک صورت حال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پولیس اور عدالتی نظام کی تمام سطوح میں سیاہ فاموں کے ساتھ شدید قسم کا نسلی امتیاز رائج ہے۔
ج) پولیس کا رویہ اور سماجی سلامتی
سابق امریکی وزیر خارجہ اور سنہ ۲۰۱۶ع کے انتخابات میں ٹرمپ سے ہارنے والی صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن نے اپنی انتخابی مہم میں کہا کہ ہر روز امریکہ کے مختلف علاقوں میں کم از کم ۹۰ افراد گولی لگنے سے مارے جاتے ہیں اور یوں امریکہ میں ہر سال گولی لگنے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۳۰۰۰۰ تک پہنچتی ہے اور یہ تعداد ان ہلاک شدگان کے سوا ہے جنہیں پولیس گولی مار کر ہلاک کرتی ہے؛ بطور مثال سنہ ۲۰۱۶ کے ابتدائی تین مہینوں میں پولیس نے گولی مار کر ۲۵۶ افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ [اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔