-
Tuesday, 28 July 2020، 01:06 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی قابض حکام نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں جنگ کے بعد تحقیقات کا آغاز کیا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کیمپوں میں واقعی کتنے افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انہوں نے۱۹۵۱میں جو اعداد و شمار شائع کئے ان کے مطابق، اس عرصے کے دوران کیمپوں میں لاپتہ افراد کی مجموعی تعداد۱/۲ ملین تھی، جس میں خانہ بدوشوں ، یوکرائنی ، یہودی اور دیگر اقوام کے افراد بھی شامل تھے حتیٰ کہ وہ افراد بھی ان اعداد و شمار میں شامل تھے جو اپنی فطری موت مرے۔
اس طرح ، اعلی ترین سطح پر، یہودیوں کی ہلاکت کی تعداد پانچ لاکھ یا چھے لاکھ سے زیادہ نہیں ہوسکتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں ، عیسائی قوموں نے اس سے کہیں زیادہ جانی نقصان اٹھایا۔ ہنگری کی چھوٹی چھوٹی ملک گیر جنگوں میں ہلاکتوں کی تعداد ، آج کے یہودیوں سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے - وہ لوگ جو فضائی حملوں میں ہلاک ہوئے یا جو کیمپوں میں بھوک اور یا سردی کی وجہ سے مرے۔ کم سے کم ان کی تعداد دس لاکھ بتائی گئی ہے۔ چھبیس لاکھ جرمن فوجی اس جنگ میں مارے گئے جو یہودیوں کی طرف سے ان پر ٹھونسی گئی تھی۔ ۱۲ لاکھ عام جرمن اس جنگ کے اختتام تک ہلاک ہوئے۔ ۱۴ لاکھ وہ جرمن ہلاک ہوئے جو جیلوں اور روس کے کیمپوں میں موجود تھے۔ (۱)
جہاں تک چھ لاکھ یہودیوں کے قتل کی تعداد کا تعلق ہے ،تو تاریخی نظرثانی کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ اعداد و شمار صیہونیوں نے ایجاد کیے ہیں، اور اگرچہ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے یہودیوں سمیت تمام دیگر جنگ زدہ ممالک کے لوگوں کے لئے بہت تباہ کن نتائج برآمد ہوئے تھے، لیکن اتنے بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کسی بھی طرح سے ممکن نہیں تھا۔ صیہونیوں کی جانب سے بیان کی گئی، ہلاک ہونے والے یہودیوں کی تعداد کے بارے میں ، تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ ایک طرف سے دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودی مقتولین کے لئے "چھ ملین" کی تعداد کا بیان پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت تھا، یا دوسرے الفاظ میں ، ایک "علامتی نمبر" تھا ، اور دوسری طرف اعداد و شمار صرف زبانی گواہی کی بنیاد پر مہیا کیے گئے۔ (۲)
فرانسیسی مسلم دانشور روجر گاروڈی (Roger Garaudy)، جو ۱۹۷۱ تک چھ ملین یہودیوں کے اعداد و شمار کو صحیح سمجھتے تھے اس بارے میں لکھتے ہیں: یہاں پر میں آپ کو یہ بتانا چاہوں گا کہ کس طرح میں نے غیر حقیقی چھ ملین یہودیوں کے اعداد و شمار کی حقیقت سے پردہ اٹھایا، کیونکہ میں بھی ۱۹۷۱ تک ان اعداد و شمار کو حقیقی سمجھتا تھا۔ ورلڈ یہودی کانگریس کے چیئرمین مسٹر "ناحوم گولڈمین" (۳) ، میرے ایک قریبی دوست ہیں یہاں تک کہ میں بیت المقدس میں ان کے گھر مہمان رہا ہوں۔ ایک دن پیرس میں انہوں نے مجھے بتایا کہ کیسے وہ جرمن صدر اعظم آڈنور سے یہودی مقتولین کا معاوضہ لینے میں کامیاب ہوئے۔ مسٹر ناحوم گولڈمین نے کہا ، "میں نے چھے ملین کے سرکاری اعداد و شمار متعین کئے۔" ( ۶)
تاریخ دان اور انسٹی ٹیوٹ برائے تاریخی جائزہ کے ڈائریکٹر، مارک ویبر کا کہنا ہے: چھے ملین یہودیوں کے قتل کا کئی ثبوت نہیں ہے۔ لہذا دوسری جنگ عظیم میں اس قتل عام کی کہانی کے بارے میں بہت سارے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ جاپان سے چھپنے والے ایک اہم اخبار باسلرناخریشتن نے ایک دقیق رپورٹ کے بعد ۱۹۴۶ میں یہ لکھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمن حکومت کے ہاتھوں ۱۵ لاکھ سے زیادہ یہودیوں کی جانیں گئی ہوں۔ ( ۷)
حواشی
۱ـ لوئیس مارشالکو، فاتحین جهانی (جنایتکاران حقیقی جنگ) ترجمه دکتر عبدالرحیم گواهی (تهران: مؤسسه فرهنگی انتشاراتی تبیان، ۱۳۷۷) صص۱۸۲-۱۸۳٫
۲ـ نشریه رویداد و گزارش صهیونیسم (تجدیدنظرطلب)، شماره ۶-۵۰، ص ۲۰٫
۳- Nahum Goldman
۴ـ سیاستمدار آلمانی و بانی حزب مسیحی دموکرات آلمان. وی بین سالهای ۱۹۴۹ تا ۱۹۶۳ صدر اعظم آلمان بود.
۵ـ روژه گارودی، محاکمه آزادی (در مهد آزادی)، (تهران: مؤسسه فرهنگی اندیشه معاصر، ۱۳۷۷) صص۵۷- ۵۶٫
۶ – Baseler Nacherichten
۷ـ مارک وبر، اعتبار از دست رفته هولوکاست، مؤسسه بازنگری تاریخی htt://www.ihr.com