-
Wednesday, 29 July 2020، 01:11 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سابقہ رپورٹوں میں ایسے بہت سے معیاروں کا تذکرہ کیا گیا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی طاقت مختلف شعبوں میں انحطاط اور زوال سے دوچار ہے؛ تاہم شاید اہم ترین معیاروں میں سے ایک فوجی طاقت ہے جو دنیا بھر میں امریکی بالادستی کا جدائی ناپذیر جزء ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ملک کی فوجی طاقت دوسرے اشاروں سے کہیں پہلے، اپنی اثرگذاری میں ناقابل یقین تنزلی دکھا چکی تھی۔
لاطینی امریکہ میں قتل عام
امریکی حکومت جو برطانوی سامراج سے آزاد شدہ ۱۳ ریاستوں پر مشتمل تھی نے اپنے قیام کے آغاز ہی سے کوشش شروع کر دی کہ جبر کی طاقت سے فائدہ اٹھا کر فرانسیسیوں کے زیر تسلط علاقوں پر قبضہ کرے اور امریکہ کے اصل مالکین ـ یعنی سرخ فام باشندوں ـ کے باقیماندہ علاقوں کو غصب کرکے اپنی عملداری کو وسعت دے۔ برطانیہ اور فرانس کے زیر تسلط علاقوں میں امریکی طاقت کے استحکام کے بعد اس ملک نے پڑوسی ممالک کے خلاف جارحیتوں کا آغاز کیا۔
سرحد پار امریکی جارحیتوں کا سب سے پہلا نشانہ امریکہ کا پڑوسی ملک میکسیکو ہے۔ یہ ملک انیسویں صدی کے آغاز میں امریکہ کے ساتھ اپنی جنگ کے دوران سان فرانسسکو، ٹیکساس اور کیلیفورنیا سمیت اپنے بہت وسیع رقبے کو امریکہ کے حوالے کرنے پر مجبور ہوا اور میکسیکو کے یہی مقبوضہ ممالک بعد میں امریکہ کی طاقت اور دولت کا اصل ذریعہ بنے۔ میکسیکو کے بعد لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک کی باری آئی۔
باوجود اس کے کہ مونرو ڈاکٹرائن (Monroe Doctrine) کے مطابق، امریکہ کا ارادہ نہیں تھا کہ لاطینی اور شمالی امریکی علاقے سے باہر کسی ملک میں مداخلت کرے، لیکن لاطینی امریکی ممالک کو امریکہ کی طرف سے بدترین جارحیتوں کا سامنا کرنا پڑا؛ پورٹو ریکو (Puerto Rico) پر حملہ، ہیٹی (Haiti) پر حملہ، کیوبا پر حملہ اور اس کے بعض علاقوں پر قبضہ، نیز پاناما پر حملہ کرکے نہر پاناما کی تعمیر لاطینی امریکہ میں امریکہ کی اہم فوجی مہمات ہیں۔ ان امریکی جارحیتوں کا مقصد علاقے پر یورپی ممالک کے تسلط کا سد باب کرنا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لئے ایک خصوصی ـ بلاشرکت غیرے ـ تجارتی علمداری فراہم کرنا تھا۔
اس تجارتی علاقے کی ترقی سے امریکیوں کا مقصد، ریاست ہائے متحدہ کے تجارتی راستے کو چین تک پھیلانا تھا۔ کیونکہ چین امریکی تاجروں کے منافع بخش نظام مراتب میں بنیادی حیثیت رکھتا تھا۔ امریکیوں نے حتی کہ جنوب مشرقی ایشیا کے بعض ممالک پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی، اس نے فلپائن پر حملہ کیا، اس پر قبضہ کیا اور اس ملک کے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور یہ اس امریکی حکمت عملی ہی کا تسلسل تھا۔
اس کے باوجود، امریکہ دوسری عالمی جنگ تک کسی طور پر بھی ـ خاص طور پر فوجی اعتبار سے ـ ہرگز عالمی طاقت نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن پہلی اور دوسری عالمی جنگیں وہ مواقع تھے جن سے فائدہ اٹھا کر امریکیوں نے فوجی اعتبار سے اپنے آپ کو عالمی طاقت کے طور پر متعارف کروایا۔
یہ سلسلہ سنہ ۱۹۱۷ء میں ـ پہلی عالمی جنگ میں امریکہ کی باضابطہ مداخلت سے شروع ہوا اور دوسری عالمی جنگ میں جاپان اور ہٹلر کے جرمنی کے خلاف جنگ میں عروج کو پہنچا۔ امریکہ نے اپنی آبادی اور صنعتی طاقت کی مدد سے سنہ ۱۹۴۵ء میں اپنی فوجی نفری کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک پہنچائی تھی جبکہ جنگ کی ابتداء اور سنہ ۱۹۳۹ء میں امریکی فوج کی نفری کی تعداد دو لاکھ پچاس ہزار تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے آخر میں امریکیوں کی طاقت یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ وہ ۲۴ گھنٹوں میں ایک طیارہ بردار جہاز بنا سکتے تھے۔ ایٹم بم ـ جو دوسری عالمی جنگ کے بعد توازن کے نظام میں سب سے اہم اور بنیادی عنصر سمجھا جاتا تھا ـ امریکیوں کی کوششوں کا ثمرہ تھا گوکہ انہیں ہٹلر کے خوف سے بھاگ کر امریکہ ہجرت کرنے والے یورپی سائنسدانوں کا تعاون بھی حاصل تھا۔
*ویٹ نام سے ۱۱ ستمبر تک
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی اپنی فوجی طاقت کے سہارے، سوویت یونین کے ساتھ مل کر دو ستونوں پر مشتمل عالمی نظام کے حصے کے طور پر، اس نظام کا دوسرا ستون بن گئے۔ اگرچہ اس نئے عالمی نظام نے ـ ناقابل پیشگوئی عواقب و نتائج کے خوف سے ـ تیسری عالمی جنگ کا راستہ روک لیا لیکن تیسری دنیا کے ممالک کے باہمی تنازعات کی جولان گاہ بن گئے۔
کوریا کی جنگ اس عسکری مسابقت کا پہلا بلاواسطہ نتیجہ تھی جس کے بموجب یہ قدیم سرزمین دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی اور آج کوریا کی جنگ کے ۷۰ سال بعد بھی، قدیم کوریائی سلطنت دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔
ویت نام کی جنگ دو بڑی طاقتوں کے تقابل کا دوسرا حصہ تھا جو بدقسمتی سے امریکہ نے دائیں بازوں کی جماعتوں کے اثر و رسوخ کا سد باب کرنے کے بہانے شروع کردی تھی۔ ویت نامیوں نے ہوچی منہ (Ho Chi Minh) کی قیادت میں جاپانیوں اور فرانسیسیوں کے مار بھگایا تھا اور اب انہیں ان دو سے بڑے دشمن کا سامنا تھا جو ان کی کامیابیوں کے آگے بند باندھنا چاہتا تھا۔ جنگ ویت نام سنہ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے آغاز سے کئی برسوں تک جاری رہی (۱) اور اس جنگ میں ـ دوسری عالمی جنگ کے بعد نیز سرد جنگ کے تیس سال بعد ـ امریکیوں کی فوجی طاقت، ایک چھاپہ مار جنگ میں جانچی پرکھی گئی گوکہ یہ جانچ پرکھ امریکیوں کے لئے بہت زیادہ مہنگی پڑی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ۵۸ ہزار امریکی فوجی مارے گئے اور کئی لاکھ زخمی؛ اور یہ وہ قیمت تھی جو امریکیوں کو ادا کرنا پڑی۔
سنہ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں امریکہ کو کئی بڑے جارحانہ ٹھکانوں سے پسپا ہونا پڑا، جو کہ ویت نام کی جنگ کا براہ راست نتیجہ تھا۔ بہرصورت ویت نام کی جنگ میں بھی اور اس کے بعد بھی امریکی فوجی طاقت کو شدید ترین شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ رونلڈ ریگن کی صدارت میں اس تاریخی تذلیل کا ازالہ کرنے کے لئے ایک بار پھر کوششیں کی گئیں۔ امریکیوں نے اپنی دفاعی قوت میں اضافہ کرکے “اسٹارز وار” کا منصوبہ پیش کیا تا کہ سوویت یونین کو ـ جو معاشی مسائل سے دوچار ہوچکا تھا ـ اسلحے کی دوڑ میں الجھایا جاسکے اور اس دوڑ نے سوویت یونین کو زوال کامل سے دوچار کیا۔ سنہ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے آخر میں امریکی ویت نام کی تاریخی تذلیل کی تلافی کرچکے تھے اور خلیج فارس کی جنگ (۱۹۹۰ع) میں صدام پر اپنی عسکری بالادستی کا ثبوت دے چکے تھے۔
یہ صورت حال آخر کار ایسے نقطے پر پہنچی کہ ۱۱ ستمبر سنہ ۲۰۰۱ء کے بعد، امریکیوں نے افغانستان اور عراق پر ہمہ جہت فوجی چڑھائی کرکے ان دو ممالک پر قبضہ کرلیا۔ یہ دو جنگیں امریکیوں کی فوجی طاقت اور طاقت کے اظہار کا عروج سمجھی جاتی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ یہ طاقت ابھی تک قائم رکھ سکا ہے؟
۔طویل ترین استعماری جنگوں نے امریکی فوج کا ستیاناس کیا
حقیقت یہ ہے کہ امریکیوں کو اس وقت فوجی شعبے میں بہت بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ اس امریکہ کا آج اتا پتا ہی نہیں ہے جو آج سے کچھ ہی عرصہ قبل سنہ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت سمجھا جاتا تھا۔ آج امریکہ کو بجٹ کے سلسلے میں بھی اور جدید ہتھیاروں کے سلسلے میں بھی بےانتہا مسائل کا سامنا ہے۔
علاقے میں دو اہم جنگیں ـ یعنی عراق کی جنگ اور افغانستان کی جنگ ـ ایک ایسے میدان میں تبدیل ہوچکی ہیں جس نے امریکی طاقت کو شدید فرسودگی سے دوچار کردیا ہے۔ امریکیوں نے عراق پر جارحیت کرنے کے بعد ۱۰ لاکھ فوجی عراق بھجوا دیئے جن میں سے ـ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ـ ۶۰۰۰ فوجی ہلاک ہوئے۔ اگرچہ غیر سرکاری اعداد و شمار میں عراق میں امریکی ہالکین کی تعداد کئی گنا بتائی جاتی ہے۔
عراق میں امریکی افواج کے اخراجات کمر توڑ اور امریکی معیشت کے لئے ناقابل برداشت تھے۔ عراق کی جنگ میں امریکیوں کے اخراجات کے سلسلے میں مختلف تخمینے پیش کئے گئے ہیں چھ کھرب (۶۰۰,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰ ارب) ڈآلر سے لے کر تیس کھرب (۳,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰) ڈالر تک۔
ان اخراجات میں زخمی فوجیوں کو معاوضہ نیز متفرقہ اخراجات بھی شامل ہیں، جبکہ جنگ عراق کے اخراجات برداشت کرنے کا سلسلہ برسوں تک جاری رہے گا۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ سنہ ۲۰۰۸ء کے مالی بحران کا سبب وہ ہولناک اخراجات تھے جو امریکہ کو عراق اور افغانستان پر جارحیت کرکے اٹھانا پڑے تھے۔ یہ عین حقیقت ہے کہ ان دو جنگوں نے امریکہ کو طویل المدت گھساوٹ اور فرسودگی سے دوچار کیا۔
یہ دونوں طویل اور تھکا دینے والی جنگیں استعماری جنگوں کے زمرے میں آتی ہیں، اور لگتا ہے کہ ان دو جنگوں کا انتہائی نقطہ قابل تصور ہی نہیں ہے اور گویا انہیں ابد تک جاری رہنا ہے۔ اور اس کے باوجود بہت سے تزویری ماہرین کا خیال ہے کہ (Strategists) کا خیال ہے کہ امریکہ ان دو جنگوں کے متعینہ مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے۔ امریکہ سولہ سال سے افغانستان میں طالبان کا نام لے لے کر لڑتا رہا ہے اور اب پاکستان کی ثالثی میں طالبان کے سربراہوں کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں میں مصروف نظر آرہا ہے۔
۔ بندھے ہوئے ہاتھ بمقابلۂ چین و روس
امریکیوں کو سمندر میں بھی کثیر مسائل کا سامنا ہے۔ کسی زمانے میں امریکی طیارہ بردار جہاز پوری دنیا میں امریکی فوجی طاقت کا اہم ترین حربہ سمجھے جاتے تھے، لیکن آج امریکہ اس سلسلے میں اہلیت کی حضیض تک پہنچ چکا ہے۔
اس مسئلے کا سبب امریکی افواج کے بجٹ کے مختلف حصوں میں پیش آمدہ متعدد مشکلات ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل (Wall Street General) نے کچھ عرصہ قبل اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ امریکہ اور اس کی بحری فوج کو جدیدسازی نیز امریکی جنگی بحری جہازوں کے صحیح استعمال کے سلسلے میں لاتعداد مسائل کا سامنا ہے۔ اس وقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست ویرجنیا میں ایک ہی ایسا بحری اڈہ ہے جو امریکہ کے طیارہ بردار ایٹمی بحری جہازوں کی میزبانی اور تعمیر و مرمت کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایسے حال میں امریکیوں کا دعوی ہے کہ اس ملک کی فضائیہ اپنی طاقت کے عروج پر ہے، لیکن شائع ہونے والی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی فضائیہ کا ۵۰ فیصد حصہ بروقت مرمت اور افرادی قوت کی صحیح عدم تربیت کے بموجب شدید مشکلات کا شکار ہے۔ گوکہ امریکہ اسی فضائیہ کے ذریعے بھی علاقے ـ بلکہ پوری دنیا ـ میں اپنے آپ کو طاقتور ترین فوجی طاقت کے طور پر متعارف کروا سکتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں موجود دوسرے مسائل و مشکلات مزید امریکیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گی کہ وہ جہاں چاہے اپنی فوجی قوت کو استعمار کرے۔
درحقیقت مسئلہ وہی ہے جو سابق امریکی صدر بارک اوباما نے سنہ ۲۰۱۲ء میں ویسٹ پائنٹ عسکری درسگاہ (United States Military Academy) میں خطاب کے دوران بیان کیا تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ ” صرف یہی کہ ہمارے پاس بہترین ہتھوڑا ہے، دلیل نہیں ہے کہ ہر مسئلہ ایک کیل ہے”۔ (۲) جس کا سادہ سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ “امریکی عسکری ہتھوڑے سے مزید کوئی کیل کسی چٹان میں ٹھونکنا ممکن نہیں ہے”۔ یا یوں کہئے کہ “امریکی فوج مزید، امریکی طاقت کے اظہار کے لئے، مناسب حربے کا کردار ادا کرنے سے عاجز ہے”۔
اب باری ڈونلڈ ٹرمپ کی ہے جو ان سارے نقائص کے رد عمل کے طور پر بزعم خود امریکی فوجی ڈھانچے کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ فوجی بجٹ میں بےتحاشا اضافہ کرکے امریکی فوجی شعبے کے پرانے نقائص کا ازالہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم کام جنگی بحری جہازوں اور تباہ کن جہازوں (Destroyers) کی تعمیر ہے۔ یہ مسئلہ سنہ ۲۰۱۹ء کے عسکری بجٹ میں بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔
اس وقت ٹرمپ نے امریکی افواج کے لئے ۷۰۰ ارب ڈالر کا بجٹ قرار دیا ہے۔ یہ بجٹ اگرچہ عددی لحاظ سے امریکی تاریخ کا سب سے بڑا فوجی بجٹ ہے لیکن ابھی تک یہ سنہ ۱۹۴۵ء کے امریکی فوجی بجٹ تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ افراط نظر کو نظر میں رکھتے ہوئے ۱۹۴۵ء کا امریکی فوجی بجٹ ـ سنہ ۲۰۱۸ء کے حساب سے ـ ایک ٹریلین (۱,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰) ڈالر بنتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کوشش کررہے ہیں کہ اپنے بعد فوجی شعبے میں ایک تسلی بخش ورثہ چھوڑ دیں۔
ایک نکتہ ـ جو امریکی افواج میں دکھائی دے رہا ہے ـ یہ ہے کہ امریکی افواج ایک محاذ پر مرکوز نہیں ہے۔ امریکیوں کو نہیں معلوم کہ انہیں کس محاذ پر لڑنا چاہئے: مشرق وسطی میں یا جنوب مشرقی ایشیا میں؟ اس وقت مشرق وسطی میں تعینات بہت سے امریکی فوجیوں کو جنوب مشرقی ایشیا میں منتقل کیا جارہا ہے جس کی بنا پر آج امریکی کمانڈروں کو ان اندیشوں کا اظہار کرنا پڑ رہا ہے کہ “ہوسکتا ہے کہ ایران کے ممکنہ حملوں سے نمٹنے یا اس ملک کے ساتھ فوجی تنازعات کے لئے امریکی افواج کافی صلاحیت نہ رکھتی ہوں”۔ یہ وہ اندیشہ ہے جس کا اظہار ایک بار مشرق وسطی میں تعینات امریکی افواج کے کمانڈر نے کیا اور حالیہ مہینوں میں امریکی ذرائع ابلاغ اسی اندیشے کو دہراتے رہے ہیں۔ یہی مسئلہ چین اور روس کے سلسلے میں پایا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کی افواج ـ ایسے حال میں کہ حکومت انہیں کافی شافی بجٹ دینے سے عاجز ہے ـ دنیا بھر میں متعدد خطروں سے نمٹنے پر مجبور ہیں۔ ان خطروں میں سے ایک جنوب مشرقی ایشیا میں چین کی قابل توجہ قوت ہے۔ چینی تیز رفتاری سے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کررہے ہیں۔ چین کی بحریہ دنیا کی دوسری بڑی بحریہ میں تبدیل ہورہی ہے اور کچھ ہی عرصہ بعد ـ ممکن ہے کہ ـ یہ ملک یہ صلاحیت حاصل کرلے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں امریکی بحریہ کو مسائل سے دوچار کرسکے۔ ادھر امریکہ اور یورپ کو نہایت بھاری روسی دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت اور بھی نازک ہوجاتی ہے جب ہم جان لیتے ہیں کہ مشرقی یورپی ممالک کی سرحدوں پر تعینات روسی افواج، یورپی ممالک میں تعینات امریکی افواج سے تیس گنا بڑی ہیں؛ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو افواج کی فوجی مشقیں محض طاقت کی ایک نمائش ہے جس کو یورپی ممالک میں مداخلت کے لئے ہر دم تیار روسی افواج سے نمٹنے کا ارادہ قرار دینا بہت مشکل ہے۔ [روسی افواج، مشرقی یورپ کے ممالک کی سرحدوں پر لڑنے کے لئے آئی ہیں نمائش کے لئے نہیں]۔
۔شام اور امریکیوں کے لئے ایک ضرب انگشت
امریکی سمجھتے ہیں کہ گویا وہ گذشتہ صدی کی طرح اب بھی دنیا کے مختلف حصوں میں کسی بھی ملک پر فوجی جارحیت کا جواز پیش کرسکتے ہیں، لیکن حالیہ چند سالوں کے واقعات نے واضح کیا ہے کہ یہ امریکی تصور حقیقت سے دور ہے اور امریکی ابھی تک دنیا کے بہت سے مسائل و مشکلات کے صحیح ادراک سے عاجز ہیں۔
شاید اس سلسلے میں سب سے زیادہ سنجیدہ ضرب انگشت شام کا مسئلہ تھا۔ امریکہ نے صدر ڈاکٹر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے لئے تمام تر معلوماتی اور عسکری اقدامات کئے تھے لیکن ایران اور روس نیز حزب اللہ لبنان نے امریکہ اور اس کے تمام علاقائی حلیفوں کی تمام تر کوششوں کو ناکام بنایا۔
یہ وہ حقیقت ہے جس کی طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بار بار اشارے کئے ہیں۔ سنہ ۲۰۱۳ء میں بھی اور پھر سنہ ۲۰۱۸ء میں بھی امریکہ نے شام پر حملہ کرنے کا بھی اعلان کیا لیکن اعلان کے بعد اپنی تاریخ میں پہلی بار ایسا کرنے میں بےبس نظر آیا؛ اور اب شام میں غیر قانونی طور پر تعینات امریکی فوجی دستوں کے انخلاء کا اعلان شاید اسی حقیقت کے ادراک کا ایک ثبوت تھا کہ “امریکی مزید دنیا کے کسی بھی مقام پر، کسی بھی ملک کے عوام کے خرچے پر، اس ملک میں چڑھائی نہیں کرسکتے”۔
امریکیوں کو چاہئے کہ اس صورت حال کو تسلیم کریں کہ اس ملک کی فوجی قوت بہت زیادہ کمزور ہوچکی ہے اور امریکہ اور روس سمیت، امریکہ کے رقباء پوری قوت سے اپنی افواج کو جدیدترین ہتھیاروں سے لیس کررہے ہیں اور جدید اسلحے اور فوجی سازوسامان کو ترقی دے رہے ہیں۔
بےشک ہم کچھ ہی سالوں میں امریکہ کے بعض رقباء کو ایسے علاقوں میں نمایاں کردار ادا کرتا دیکھیں گے جہاں کسی وقت امریکی کی بات حرف آخر سمجھی جاتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: مہدی پور صفا
ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین مہدوی