-
Friday, 24 July 2020، 01:54 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج سے صرف ۱۰ سال قبل تک امریکی زوال کے بارے میں کچھ بولنا لکھنا شاید کافی مشکل تھا لیکن آج قریب الوقوع واقعے کو پوری دنیا میں ایک مسلمہ حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ کوئی بھی اس نکتے کو فراموش نہیں کرسکتا کہ ۲۰۰۸ع کے مالی بحران اور مغرب میں وسیع پیمانے پر مالیاتی زوال کے بعد وہ مفہوم کلی طور پر نابود ہوگیا جس کو امریکن ڈریم کا نام دیا جاتا رہا تھا۔
امریکن ڈریم کا مزید کوئی وجود نہیں تھا اور ۹۹٪ عوام کے احتجاجات نے بھی واضح کردیا کہ امریکہ کو عظیم بحران کا سامنا ہے اور اس بحران کا سبب اس ملک کی طاقت کا زوال تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کا [کم از کم ایک] سبب یہ تھا کہ امریکیوں کے مابین امریکن ڈریم پھیکا پڑ گیا ہے۔
اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کو اپنی سرحدوں میں [واپس] لانا چاہتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ امریکی طاقت زوال کی طرف کیوں جارہی ہے؟ اور امریکہ کو محدود کرنے کے لئے ہونے والے یہ اقدامات کس حد تک امریکہ کی نام نہاد بالادستی (Hegemony) کو کم کرسکیں گے؟
مثالیت پسندی اور مادہ پرستی کی کشش
امریکہ بہر صورت، اپنی تاریخ اور بین الاقوامی سطح پر اپنے رویوں کی بنا پر، عالمی توجہات کا مرکز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو امریکی بالادستی کا نام دیا ہے جاتا ہے بعینہ وہی چیز ہے جس کو امریکن ڈریم کہا جاتا ہے۔ امریکن ڈریم وہ سب کچھ ہے جس کے اوپر ریاست ہائے متحدہ امریکہ آج تک قائم رہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر آج امریکن ڈریم کے نام کا کوئی مفہوم نہ ہوتا تو شاید امریکی طاقت نامی چیز بھی نہ ہوتی۔
اب اس فرض [اور تصور] کے ساتھ کہ، بین الاقوامی معاملات میں تعمیری اثر و رسوخ کی امریکی اہلیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ دنیا والے امریکہ کے سماجی نظام اور بین الاقوامی کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؛ تو ہم نتیجہ لیں گے کہ اگر امریکہ کے اندر کے منفی حقائق اور اس کے بیرونی سیاسی اقدامات ـ جو کہ بین الاقوامی نفرت کا باعث ہوئے ہیں ـ امریکہ کے تاریخی کردار کو ناپسندیدہ بنا دیں تو امریکہ کی عالمی وضع (position) لامحالہ، زوال پذیر ہوگی۔ چنانچہ امریکہ کو اپنی تمام تر منفرد اور موروثی طاقت کو بروئے کار لاکر اپنے حیرت انگیز اندرونی مسائل پر غلبہ پانا ہوگا اور اپنی بےلگام خارجہ پالیسی کو تبدیل کرے تا کہ اپنی ہمہ جہت اور منظم برتری کا تحفظ کرسکے۔
کئی عشروں کے دوران “امریکن ڈریم” نے کروڑوں انسانوں کو اپنی زلفوں کا شیفتہ بنا کر انہیں امریکی ساحلوں تک کھینچ لیا ہے۔
امریکن ڈریم اور جاذبیت
بہت سے بیرونی سائنسدان، اطبّاء اور سرمایہ کار آج بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں ان کے لئے کام کاج کے مواقع موجود ہیں اور زیادہ تسلی بخش سماجی صورت حال نیز سستی زندگی ان کا انتظار کررہی ہے! جبکہ ان کے اپنے ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ نوجوان نسل کے لوگ امریکہ میں اعلی جامعاتی تعلیم کے حصول کے لئے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ کیونکہ امریکہ سے ایک اعلی تعلیم سند انہیں اپنے ملک میں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی زیادہ بہتر پیشہ ورانہ ماحول فراہم کرسکتی ہے۔ ہر سال تقریبا ۱۰ لاکھ بیرونی طلبہ حصول تعلیم کے لئے امریکہ پہنچتے ہیں اور امریکہ کے اندر کے صورت حال کے شیدائی بن کر وہیں رہ جاتے ہیں۔ [اور یوں جن ملکوں سے وہ آئے ہیں وہ ان افراد کی اہلیتوں اور صلاحیتوں سے کلی طور پر محروم ہوجاتے ہیں]۔
اسی طرح مرکزی امریکہ کے غریب عوام، جو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر امریکہ کی غیر فنی اور غیر تخصصی منڈی میں کام تلاش کرنے کے لئے آتے ہیں، در حقیقت ایسا ذاتی انتخاب کرچکے ہیں جو انہیں ان لوگوں سے ممتاز کردیتا ہے جو اس طرح کے پر خطر سفر کی جرات نہیں رکھتے۔ ایسے افراد کے لئے امریکہ آج بھی پہلے سے بہتر زندگی کی خاطر، جاذب ترین اور قریب ترین منزل ہے۔ ان افراد کے ذاتی سپنوں کا اصل فائدہ آخرکار امریکہ کو پہنچتا ہے۔
امریکہ کی جاذبیت اور کشش کی کنجی مثالیت پسندی (idealism) اور مادہ پرستی (materialism) کے دو عناصر کے ملاپ سے معرض وجود میں آئی ہے اور یہ دونوں عناصر انسانوں کی روحوں کو اکسانے اور متحرک کرنے کے لئے ہیں۔
امریکہ کی شخصیت ابتداء ہی سے مثالیت پسندی اور مادہ پرستی کے دو عناصر، کے آئینے میں دیکھی اور دکھائی گئی ہے۔ اسی بنا پر بحر اوقیانوس (Atlantic Ocean) کے اطراف کے لوگ ـ جو اپنے ملکوں کو لئے وہی کچھ چاہتے تھے جو امریکی انقلاب نے بظاہر اپنے عوام کے لئے چھوڑ رکھا تھا ـ امریکہ کی طرف کھنچ گئے۔ امریکہ جانے والے مہاجرین ایسے خطوط اپنے عزیزوں کے لئے لکھتے تھے جن میں امریکہ کی مالیاتی صورت حال اور ان افراد کی سماجی شخصیت کے سلسلے میں ـ مبالغہ آمیزی پر استوار ـ دلفریب تصویر دکھائی جاتی تھی۔ چنانچہ بہت سوں کو یہ المناک حقیقت تلاش کرنے کے لئے خود امریکہ جانا پڑا کہ “امریکہ کی سڑکوں پر سونے کے قالین نہیں بچھے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲